شیر خوار بچوں کو پلایا جانے والا ڈبے کا دودھ مضر صحت ہے یا نہیں۔۔بتایا کیوں نہیں جاتا؟
باغی انویسٹی گیشن سیل۔
لاہور ہائی کورٹ میں شیر خوار بچوں کو پلائے جانے والے ڈبے کے دودھ بنانے والی کمپنیوں کی رجسٹریشن اور انلسٹمنٹ کی پٹیشن میں دائر توہین عدالت کی درخواست میں عدالت کا بڑا حکم۔مدعا علیہان سے 10اکتوبرکو رپورٹس طلب کرلیں۔
کیس کی سماعت لاہور ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس محمد امیر بھٹی کے بعد مسٹر جسٹس فاروق حیدر اور ایکبار پھر سے مسٹر جسٹس محمد امیر بھٹی کی عدالت میں شروع ہوگئی ہے۔2مئی کو عدالتی حکم کے باوجو دمدعلیہان نے سات یوم کے اندر جواب جمع نہ کروایا جس پر پٹیشنر محمد حسنین نے اپنے شہباز اکمل جندران ایڈوکیٹ کے توسط سے توہین عدالت کی درخواست دیدی۔اورلاہور ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس فاروق حیدر نے عدالتی حکم کے باجود رپورٹس جمع نہ کروانے پر مدعا علیان کو 25 جون کو طلب کرلیا۔تاہم بنچ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے مقررہ تاریخ کو مقدمے کی سماعت نہ ہوسکی۔اس پر درخواستگزار کی طرف سے پٹیشن کی جلد شنووائی کی درخواست پر عدالت عالیہ نے ڈی جی پاکستان سٹینڈر اینڈ کوآلٹی کنٹرول اتھارٹی، سی ای او ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی،صوبائی وزیر صحت پنجاب اور ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی سے 10اکتوبر کو تحریری جواب طلب کرلیا ہے۔
پٹیشن میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ملک میں ایک سال تک کی عمر کے چھوٹے بچوں کو پلایا جانے والا ڈبے کا دودھ مضر صحت ہے یا نہیں کوئی نہیں جانتا۔حالانکہ ملک میں ڈبے کے دودھ کو ریگولیٹ کرنے کے لئے مختلف سرکاری محکمے اور اتھارٹیاں کام کر رہی ہیں۔اورہر محکمے اور ہر اتھارٹی کے الگ قوانین۔الگ ریگولیشنز اور سٹینڈرڈ ہیں۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی حرکت میں، کتنے کلو مضر صحت گوشت تلف کیا؟ اہم خبر
درخواست گزارکی طرف سے مزید موقف اختیار کیا گیا کہ کسی قانون میں اسے دودھ کہا گیا ہے کسی میں فوڈ تو کسی میں فوڈ سپلیمنٹ۔کوئی محکمہ کہتا ہے ڈبے کا دودھ کھلے عام بک سکتا ہے کوئی کہتا ہے صرف ڈاکٹر نسخے پر ہی فروخت ہو سکتا ہے۔کوئی نہیں بتاتا کہ ڈبے کے دودھ کے سائیڈ افیکٹس کیا ہیں۔