بچوں کی تعلیم و تربیت میں ماں باپ کا کردار! .تحریر: فیضان علی

0
217

بچوں کی تعلیم و تربیت میں ماں باپ کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے جو کے پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے
ابتدائی عمر سے لے کر اسے شعور آجانے تک یہ والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اسے کیسا ماحول فراہم کر رہے ہیں کیونکہ وہ جس ماحول میں رہے گا اور وہاں کے لوگوں کے درمیان رہے گا جو انہیں کرتا دیکھے گا وہی اس کورے کاغذ یا سلیٹ جیسے دماغ میں نقش ہوجائے گا

(ماں کی گود بچے کی پہلی درست گاہ ہوتی ہے)

تعلیم و تربیت انسانی روح کی بہت اہم غذا ہیں
جب بچہ دنیا میں آ کر اپنی آنکھیں کھولتا ہے تو اس کے کانوں میں اذان دی جاتی ہے گویا اسی وقت اس کی تعلیم و تربیت کا آغاز ہو جاتا ہے ماہرین کا کہنا ہے بچے کا دماغ کورے کاغذ کی طرح ہوتا ہے بچہ جس ماحول میں پیدا ہوتا ہے بہت جلد وہ اسی ماحول کا اثر پکڑ لیتا ہے
اپ جیسا ماحول بچوں کو مہیا کریں گے وہ اسی ماحول کی تعلیم حاصل کریں گا اور اسی رنگ میں ڈھل جائیں گے یہ بات ہم پر لازم ہے کے ہم اپنے بچوں کو کس قسم کا ماحول اور کس قسم کی تعلیم اپنے بچوں کو دیتے ہیں
ابتدائی عمر سے لے کر انہیں شعور آجانے تک یہ والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ بچوں کو ایک اچھا ماحول دیں اور ان کی اچھی تربیت کریں بچے اپنے ماحول میں اردگرد کے لوگوں کو جو کرتا دیکھیں گے جن کے ساتھ نشت و برخاست ہوں گا انہی چیزوں کو انہی کے آداب طور طریقے اپنے دماغ میں نقوش کرتے جائیں گے اور یہ ماحول کا بہت گہرا اثر ہوتا ہے
سب سے بڑھ کر ماں باپ کی محبت بچوں کے لیے، بچوں کی تعلیم و تربیت میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے آپ اپنے بچوں کے ساتھ جس شفقت اور محبت کے ساتھ پیش آئیں گے اپ کے بچے بھی اسی طرح ایک میٹھی تربیت حاصل کریں گے دنیا میں محبت اور شفقت سے بڑھ کر کچھ نہیں یہی شفقت بچوں کو ایک اچھا انسان بھی بناتی ہے

اب جب بچہ اسکول جانے لائق ہوجاتا ہے تو لازماً اسے ادب و آداب و اخلاقیات اور حسنِ عمل کی بنیادی تربیت فراہم کی جائے والدین کو اپنے گھروں میں مذہبی اور روحانی ماحول تشکیل دینے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے انہیں جھوٹ، بدزبانی اور لڑائی جھگڑے سے کنارہ کشی اختیار کرلینی چاہیے بچوں کو کھیلنے کے لیے کون سا کھلونا دینا ہے یہ فیصلہ کرتے ہوئے والدین کو بہت بڑی احتیاط برتنی چاہیے
گھر کا ماحول سب سے اہم ترین عنصر ہے جو بچے کی زندگی پر گہرا اثر مرتب کرتا ہے ایک بچہ اپنی زندگی کے ابتدائی لمحات سے ہی اپنے والدین پر منحصر ہوتا ہے جو اس کی تمام ضروریات کو پورا کرتے ہیں والدین بچوں کے پہلے معلمین ہوتے ہیں اور ان کے لیے رول ماڈل کا کردار ادا کرتے ہیں
بہت سارے بچے خوش قسمت ہوتے ہیں کے جن کو گھر کا ماحول والدین کی محبت اور شفقت سے بھرپور ایک اعلیٰ سازگار ماحول ملتا ہے اور یہ بچوں کی کامیابی کا بہت اہم ضامن ہے
اگر والدین یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں کتنے کامیاب ہیں تو اس کا اندازہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کو دیکھ کر لگا سکتے ہیں اگرچہ بچے اخلاقی طور پر اچھے ہیں تو یہ والدین کی اعلیٰ کامیابی ہے یوں بچے کامیابی اور ناکامی پرکھنے کا حقیقی پیمانہ ہیں

بچوں کو چند احتیاطی تدابیر کے ساتھ والدین کے زیرِنگرانی سوشل میڈیا کا استعمال کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
جب بچہ 10، 12 سال کا ہو جاتا ہے تو والدین کی ذمہ داریوں میں بھی تبدیلی آ جانی چاہیے اس عمر میں بچہ اسکول میں محلے میں اور معاشرے میں دوستیاں قائم کرنے لگتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اس عمر میں بچوں کے دوست بن جائیں اور ان کے لیے صحیح راستے کی رہنمائی کریں۔
بچوں کی یہ عمر ہر لحاظ سے خوب پھلنے پھولنے کی ہوتی ہے اس عمر میں بچوں کی نقل و حرکات پہ کڑھی نظر رکھنی چاہیے بچوں کو گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹانے کے ساتھ اپنے ساتھ نماز ادا کرنے کا پابند بھی بنائیں اور معاشرے میں بڑھتے کچھ جرائم اور تشدد کے واقعات کے بارے میں بڑی احتیاط کے ساتھ بچوں کو انکے بارے میں آگاہ کیا جائے،
ایک سنہری کہاوت ہے کے گھر میں بچوں کے اچھے دوست بن جائیں تو بچے باہر کی بری دوستی سے بچ جاتے ہیں سادہ الفاظ میں یہ کہوں گا کے بچوں کو گھر میں اچھا دوستانہ ماحول مہیا کریں تاکے اپ کے بچے بُری صحبت سے بیچیں
اولاد ﷲ تعالٰی کی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اس کا تحفظ کرنا والدین کی زمہ داری ہے
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ، ‘اے ایمان والو تم اپنے آپ کو اور اپنے گهر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندهن آدمی اور پتهر ہیں۔‘ (66:6)

Leave a reply