ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں خبروں، باتوں اور افواہوں کی رفتار بجلی سے بھی تیز ہو گئی ہے۔ سوشل میڈیا، موبائل ایپلیکیشنز اور دیگر ذرائع کی بدولت ہر شخص کی زندگی دوسروں کے سامنے ایک کھلی کتاب بنتی جا رہی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم ہر سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق سچ مان لیں؟ اور کیا کسی کے بارے میں محض سنی سنائی بات پر تعلقات ختم کر دینا یا ان کی عزت اچھالنا درست ہے؟ہر گز نہیں،قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے،”اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو نادانی میں نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پچھتاؤ”(سورۃ الحجرات، آیت 6)

یہ آیت ہمیں ایک واضح ہدایت دیتی ہے کہ کسی کی بات پر آنکھ بند کر کے یقین کر لینا دانشمندی نہیں بلکہ جہالت ہے۔ تحقیق کے بغیر کسی پر الزام لگانا، اس کی شخصیت کو بدنام کرنا یا اس سے تعلق ختم کر لینا ایک نہایت غیر اسلامی اور غیر اخلاقی عمل ہے۔

ہم اکثر دوسروں کے بارے میں سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر رائے قائم کر لیتے ہیں، چاہے وہ بات جھوٹ ہو یا سچ کا فقط ایک پہلو۔ یہ عمل نہ صرف ہمارے تعلقات کو خراب کرتا ہے بلکہ معاشرے میں بداعتمادی، دوری اور منافقت کو فروغ دیتا ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا”گمان سے بچو، کیونکہ گمان سب سے جھوٹی بات ہے”(صحیح بخاری)الزام تراشی کا انجام یہ ہوتا ہے کہ سچ سامنے آنے پر انسان شرمندگی کا شکار ہوتا ہے اور اگر توبہ نہ کرے تو آخرت میں بھی حساب دینا ہوگا۔

اسلام کا پیغام یہ ہے کہ اگر ہمیں کسی کی خامی یا کوتاہی معلوم ہو بھی جائے، تب بھی ہمیں اس کا پردہ رکھنا چاہئے، نہ کہ دوسروں کے سامنے اس کی تشہیر کریں یا مزاق بنائیں۔رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے،”جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا”(صحیح مسلم)،یہ عمل صرف نیکی ہی نہیں بلکہ انسانیت کا بھی تقاضا ہے۔ جب ہم دوسروں کی عزت کا خیال رکھیں گے تو ہماری اپنی عزت بھی محفوظ رہے گی۔

کسی دوست، رشتہ دار یا عزیز کے بارے میں ایک الزام سن کر فوری طور پر قطع تعلقی کرنا دراصل جذباتی کمزوری کی علامت ہے۔ عقل مندی یہ ہے کہ ہم بات کی حقیقت جانیں، فریقین کا موقف سنیں اور اس کے بعد ہی کسی رائے یا فیصلے پر پہنچیں۔بغیر تصدیق تعلق ختم کرنا نہ صرف دوسروں کے لیے تکلیف دہ ہوتا ہے بلکہ خود ہمارے لیے بھی پچھتاوے کا باعث بن سکتا ہے۔ کئی بار سچائی سامنے آنے پر وقت گزر چکا ہوتا ہے اور تعلقات واپس جوڑنا ممکن نہیں رہتا۔یہ وقت ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان اور مہذب انسان اپنے رویوں پر نظر ثانی کریں۔ ہمیں چاہیے کہ ہر بات پر فوراً یقین نہ کریں۔دوسروں کی عزت نفس کا خیال رکھیں۔عیب پوشی کریں، نہ کہ عیب جوئی۔تحقیق اور انصاف کے بغیر کوئی فیصلہ نہ کریں۔اللہ تعالیٰ ہمیں وہ بصیرت عطا فرمائے کہ ہم کسی کی زندگی کو سنوارنے کا ذریعہ بنیں، بگاڑنے کا نہیں۔

تحریر:نور فاطمہ

Shares: