بدنصیب — عمریوسف

آج صبح اٹھتے ہی اسے فکروں نے آ گھیرا ۔ سوچوں کا وہی سلسلہ جو رات سوتے وقت ٹوٹا تھا صبح اٹھتے ہی دوبارہ بحال ہوگیا ۔ فکر معاش کے خیالات کا طوفان اس کے دماغ میں پھر چلنا شروع ہوگیا ۔ بہتر مستقبل کی توقعات اسے پھر ستانے لگیں ۔ دوستوں کی محفل میں بھی اس نے گفتگو کا موضوع بہتر نوکری ہی بنائے رکھا ۔ پھر اسے ضروری کام کے سلسلے میں کہیں جانا تھا کام کے دوران بھی وہ یہی سوچتا رہا کہ روٹی کیسے کماوں اور آنے والے وقت کو کیسے بہتر بناوں ؟

واپسی پر وہ پررونق بازاروں سے گزر رہا تھا لیکن روٹی کی فکر نے اس رونق سے بے خبر کیے رکھا ۔

چلتے چلتے اسے پارک نظر آئی جہاں اس کا پسندیدہ گوشہ تھا جہاں تنہائی تھی ، سکون تھا ، خاموشی تھی جہاں وہ گھنٹوں بیٹھا اپنے ساتھ وقت گزارتا تھا ۔ لیکن روٹی کے فکر نے اس پارک سے بھی بے خبر کیے رکھا ۔

اس کے بچپن کا دوست اسے ملا جس کے ساتھ وہ لوگوں کے گھروں میں پٹاخے پھینک کر چھپ جاتا اور گھر والوں کی ہربراہٹ کو انجوائے کرتا ، لیکن وہ روٹی کی فکر میں اپنے دوست کو بھی نظر انداز کرگیا ۔

سورج غروب ہوا اور شام کے سائے بڑھ گئے ، اندھیرا چھانے لگا اور وہ گھر کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے جانے لگا ۔ گھر میں داخل ہوا تو اس کی بیوی اس کے انتظار میں تھی اس نے جلدی سے روٹی تیار کی اور اس کے سامنے لا کر رکھ دی وہ روٹی کمانے کی فکر میں اتنا گھر چکا تھا کہ اس نے روٹی کو یہ کہتے ہوئے سائیڈ پر کردیا کہ میرا کھانے کو دل نہیں کررہا ۔۔۔۔

چشم فلک نے یہ منظر دیکھا کہ انسان کتنا بدنصیب ہوتا ہے جو چند لمحوں کے جینے کا سلیقہ بھی نہیں جانتا جو روٹی کی فکر میں روٹی ہی چھوڑ دیتا ہے ۔

Comments are closed.