ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں شور شرابے سے باہر نکل کر بدلتی ہوئی عالمی صورتحال پر توجہ دیں۔ ریاستوں کے تعلقات، معاشی تعاون اور علاقائی توازن نئی سمتوں میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ ایسے ماحول میں پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ داخلی ہم آہنگی کو مضبوط بناتے ہوئے باہمی احترام، مکالمے اور تعاون پر مبنی حکمت عملی اپنائیں۔ عالمی، تبدیلیاں ان ممالک کے لیے مواقعے پیدا کرتی ہیں جو اتحادِ فکر، استحکام اور دوراندیش سفارتکاری کو ترجیح دیتے ہیں۔ ملک کی اصل ضرورت یہ نہیں کہ کون کس کا ذمہ دار ہے، اصل ضرورت یہ ہے کہ اجتماعی دانش کو بیدار کیا جائے، پالیسیوں میں تسلسل لایا جائے اور سماجی رویوں میں اعتدال پیدا کیا جائے۔ جب تک قوم جذبات کے بجائے بصیرت کو اپنا رہنما نہیں بناتی ترقی کے امکانات محدود ہی رہیں گے۔ دنیا میں تبدیلیاں ناگزیر ہیں مگر افسوس کہ ہم اب تک یہ طے نہیں کر پائے کہ ہم تبدیلیوں کا حصہ بننا چاہتے بھی ہیں یا نہیں۔ دنیا اس وقت ٹیکنالوجی، جدید معاشی طریقے کار اور سائنسی تحقیق کے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ اقوام اپنے مستقبل کی سمت متعین کر رہی ہیں، معیشتوں کو ڈیجیٹل بنیادوں پر استوار کر رہی ہیں اور ذہنی صحت کو سماجی پالیسی کا بنیادی حصہ بنا رہی ہیں۔ اس کے برعکس وطن عزیز اب بھی توانائی، مہنگائی اور سیاسی عدم استحکام جیسے بنیادی مسائل کے گرد ہی گھوم رہا ہے۔ نتیجتاً ہم ترقی یافتہ دنیا کی رفتار سے مسلسل پیچھے ہوتے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا نے صورتحال کو مزید بگاڑا ہے، تحقیق، دلیل اور تنقیدی شعور کمزور پڑ گیا ہے۔ جبکہ جذباتی ردعمل، سطحی رائے اور غیر سنجیدہ گفتگو عام ہوتی جا رہی ہے۔ یہ رجحان معاشرے کی فطری کمزوری کا واضح ثبوت ہے۔

سیاسی جماعتوں کا طرز عمل بدستور محاذ آرائی اور الزام تراشی کے گرد گھوم رہا ہے۔ قومی مسائل کے حل کے لیے اجتماعی لائحہ عمل اختیار کرنے کے بجائے سیاسی بیانیے، ذاتی مفادات اور جماعتی ترجیحات غالب ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی قیادت کے پاس ملک کو سمت دینے کی سکت کم اور مخالفین کو زیر کرنے کی خواہش زیادہ ہے۔ اسی سبب عوام میں شدید بےچینی اور بداعتمادی جنم لے رہی ہے۔ وطن عزیز اس وقت جس پیچیدہ صورتحال سے گزر رہا ہے اس پر سنجیدہ اور بامعنی غور و فکر کی ضرورت ہے۔ توانائی بحران، مہنگائی، اقتصادی ابتری اور حکومتی بے سمتی اپنی جگہ موجود ہے۔ مگر حالیہ ایام میں جو بحث غیر ضروری طور پر زور پکڑ رہی ہے وہ معاشرتی رویوں کی وہ کیفیت ہے جسے عمومی طور پر ذہنی بے سمتی یا نفسیاتی انتشار کہا جا رہا ہے۔ تاہم قوم میں جذبہ بہت ہے، بس سمت کی کمی ہے۔ ہمارا بحران صلاحیت کا نہیں ترجیحات کا ہے اگر ہم جذباتی فیصلوں کے بجائے فکری و اجتماعی ذمہ داری کی طرف آئیں تو آج بھی بہت کچھ بہتر ہو سکتا ہے۔ وطن عزیز کے بدنصیبی یہ نہیں کہ دنیا بدل رہی ہے بدنصیبی یہ ہے کہ ہم ابھی تک یہ طے نہیں کر پا رہے کہ ہم بدلنا بھی چاہتے ہیں یا نہیں۔

Shares: