بحث مباحثہ سے بچیں، بات کرنا سیکھیں ، تحریر ✍🏻 ام حمزہ

بحث مباحثہ سے بچیں، بات کرنا سیکھیں

تحریر ✍🏻 ام حمزہ

آپ نے عموماََ دیکھا ہوگا کہ دو آدمی بحث و تکرار کرتے ہوئے لڑ پڑتے اور ایک دوسرے سے ناراض ہو جاتے ہیں ایسا صرف فن مکالمہ سے نا واقفیت کی وجہ سے ہوتا ہے
بحث و مباحثہ کرنے والا دشوار گزار پہاڑ کے کوہ پیما کی طرح ہوتا ہے اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ ہاتھ ڈالنے اور پاؤں رکھنے کی جگہوں کو دھیان میں رکھے
وہ جس چٹان پر ہاتھ ڈالنا چاہتا ہو پہلے اسے غور سے دیکھتا اور اندازہ کرتا ہے کہ یہ چٹان اپنی جگہ پر کتنی مضبوطی سے قائم ہے جس پتھر پر اس نے پاؤں ٹکانا ہو اسے بھی اچھی طرح ٹھونک بجا کر دیکھتا ہے پھر جس پتھر سے قدم اٹھانا ہو وہاں بھی احتیاط سے کام لیتا ہے
کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ درست طور پر پیر نہ اٹھا سکے اور چٹان نیچے سے سرک کر اسے گہری کھائی میں پہنچا دے ۔

بحث و تکرار میں پڑنا دراصل کوئی قابل تعریف فعل نہیں شاید آپ مجھ سے اتفاق کریں کہ نوے فیصد سے زائد مباحثے بالکل بے فائدہ موضوعات پر ہوتے ہیں
اس لئے اول تو بحث میں پڑنے کی ضرورت ہی نہیں
اگر کہیں بحث و تکرار کے آنگن میں انگڑائی لینی پڑ جائے تو غصے میں نہ آئیے معاملہ کو وسیع الظرفی اور کھلے دل ودماغ سے لیجیئے

قریش نے حدیبیہ کے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے لئے روانہ ہوئے آپ نے اللہ سے دعا کی کہ قریش مکہ کو ہماری پیش قدمی کی اطلاع نہ ہو ۔ آپ چاہتے تھے کہ انھیں جنگ کی تیاری کا موقع دیئے بغیر اچانک ہلا بول دیا جائے ۔
اسلامی لشکر مکہ پہنچ کر ایک قریبی مقام پر خیمہ زن ہو گیا قریش کو کچھ خبر نہیں تھی کہ اسلامی لشکر سر پر آپہنچا ہے
پھر بھی وہ سن گن لے رہے تھے جس رات اسلامی لشکر وہاں اترا اسی رات
ابو سفیان چند افراد کے ہمراہ اردگرد کا جائزہ لینے نکلا ادھر قریش پر حملہ آور ہونے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے منتظر تھے
عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ منظر دیکھا تو کہا
قریش کی یہ صبح بہت بری ہو گی
واللہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بزور مکہ میں داخل ہوئے اور قریش نے آکر امان حاصل نہ کی تو قریش کا نام مٹ جائے گا
عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی آپ نے اجازت دے دی
وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفید خچری پر سوار ہوئے اور چل دئیے
ابو سفیان اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ادھر آ نکلا مسلمانوں نے آگ کے الاؤ روشن کر رکھے تھے
ابو سفیان نے آگ دیکھی تو کہنے لگا اتنی آگ اور اتنا بڑا لشکر میں نے آج تک نہیں دیکھا یہ کون لوگ ہو سکتے ہیں ایک ساتھی نے جواب دیا یہ واللہ خزاعہ کا قبیلہ ہے جو جنگ کرنے آئے ہیں ابو سفیان بولا نہیں خزاعہ کی تعداد اس سے کہیں کم ہے آگ کے اتنے الاؤ اور اتنا بڑا لشکر ان کا نہیں ہو سکتا ابو سفیان دھیرے دھیرے قریب آگیا تو مسلمان پہرے داروں نے اسے پکڑ کر رسولؐ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیج دیا خچری پر سوار عباس رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ابو سفیان اور اس کے ساتھی چند مسلمان گھڑ سواروں کے گھیرے میں ہیں ۔ ابو سفیان کی نظر عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر پڑی تو وہ گھبراہٹ کے عالم میں ان کی طرف آیا اور عباس رضی اللہ عنہ کے پیچھے خچری پر سوار ہو گیا ابو سفیان کے ساتھی انتہائی پریشانی کی حالت میں خچری کے پیچھے پیچھے چلنے لگے اور مسلمان ان کے پیچھے ہو لیے ۔ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خچری کو ایڑ دی اور ابو سفیان کو لے کر تیزی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل دئیے
آگ کے کسی الاؤ کے پاس سے گزرتے تو مسلمان کہتے کہ یہ کون ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خچری اور اس پر عباس رضی اللہ عنہ کو سوار دیکھ کر کہتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا رسول اللہ کی خچری پر ہیں ( لہذا کوئی خطرہ نہیں)

عباس رضی اللہ عنہ خچری کو تیز دوڑا رہے تھے کہ کہیں مسلمانوں کو ابو سفیان کا پتہ نہ چل جائے
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے قریب سے گزرے تو انھوں نےکہا یہ کون ہے اور اٹھ کر آگے آ گئے انھوں نے ابو سفیان کو دیکھا تو چیخ اٹھے ، ابو سفیان ، اللہ کا دشمن اللہ کا شکر ہے جس نے بغیر کسی معاہدے کے تمھیں ہمارے قابو میں دے دیا ہے

عباس رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کو منع کیا کہ ابو سفیان کو کچھ نہ کہیں
عمر رضی اللہ عنہ نے یہ منظر دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے کی طرف دوڑ لگا دی ادھر عباس رضی اللہ عنہ نے بھی خچری کو ایڑ لگائی اور عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے اسی وقت عمر رضی اللہ عنہ بھی آپہنچے اور کہنے لگے،، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ ابو سفیان ہے اللہ نے اسے بغیر کسی معاہدے کے ہمارے قابو میں دے دیا ہے اجازت دے دیجئے کہ میں اس کی گردن مار دوں،،،
عباس رضی اللہ عنہ نے فوراً کہا ،، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نے اسے پناہ دی ہے

یہ کہہ کر عباس رضی اللہ عنہ قریب آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کان میں سر گوشی کرنے لگے

عمر رضی اللہ عنہ باربار یہی کہتے رہے،،،

اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسے قتل کر دیجیے،،،

عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے مخاطب ہو کر کہا،، عمر،، ٹھہرو واللہ اس کا تعلق بنو عدی بن کعب ( عمررضی اللہ عنہ کا قبیلہ) سے ہوتا تو تم یہ بات نہ کرتے ۔

عمر رضی اللہ عنہ کو ادراک ہو گیا کہ وہ ایک ایسی بحث میں پڑنے جا رہے ہیں جو فی الحال بے فائدہ ہے انھوں نے اطمینان سے کہا ٹھہرو عباس ٹھہرو واللہ تمھارا اسلام جس دن تم مسلمان ہوئے، مجھے اپنے والد خطاب کے اسلام لانے سے زیادہ پسند تھا اگر وہ مسلمان ہو جاتے

اس لئےکہ مجھے معلوم ہے کہ تمھارا اسلام لانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کے اسلام لانے سے زیادہ پسند تھا

عباس رضی اللہ عنہ نے یہ بات سنی تو خاموش ہو گئے اور یہ بحث اختتام کو پہنچی ۔

عمر رضی اللہ عنہ چاہتے تو بات کا بتنگڑ بنا سکتے تھے. کہ کیا مطلب ہے تمھارا تم میری نیت پر شک کرتے ہو؟ کیاتم میرے دل کی حالت جانتے ہو؟ قبائلی نعرے بازی کرنے کی کیا تک بنتی ہے ؟؟

لیکن انھوں نے ایسا نہیں کہا شیطان کو اتنی جرات نہیں تھی کہ ان کے درمیان یوں آسانی سے پھوٹ ڈال سکے
عمر اور عباس رضی اللہ عنہما خاموش ہو گئے
ابو سفیان کھڑے دیکھتے رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیا حکم دیتے ہیں
آپ نے فرمایا عباس ابھی انہیں اپنے خیمے میں لے جایئے صبح میرے پاس لائیے گا ۔
عباس رضی اللہ عنہ ابو سفیان کو اپنے خیمے میں لے گئے اس نے وہاں رات گزاری
فجر کو آنکھ کھلی تو دیکھا کہ لوگ نماز کی تیاری میں مصروف ہیں اور طہارت کر رہے ہیں ابو سفیان نےحیران ہو کر عباس سے پوچھا کہ انھیں کیا ہوا
انھوں نےبتایا ان لوگوں نے اذان کی آواز سنی یے اور اب نماز کے لئے نکل رہے ہیں

جماعت کھڑی ہوئی لوگوں نے صفیں باندھیں رسول اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور تکبیر کہہ کر نماز شروع کی ابو سفیان نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کرتے ہیں تو مسلمان بھی رکوع میں جاتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے ہیں تو مسلمان بھی سجدے میں چلے جاتے ہیں
اسے اس قدر شدید پیروی پر نہایت تعجب ہوا
نماز کے بعد عباس رضی اللہ عنہ ابو سفیان کو لینے آئے ابو سفیان نے کہا عباس محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس بات کا حکم دے یہ لوگ بجا لاتے ہیں
کہا ہاں واللہ اگر وہ انھیں کھانا پینا چھوڑ دینے کا حکم بھی دیں گے تو لوگ ان کی اطاعت کریں گے
ابو سفیان نے کہا میں نے تو قیصر وکسری’ کی بادشاہت میں بھی اطاعت اور جان نثاری کا یہ عالم نہیں دیکھا

عباس رضی اللہ عنہ ابو سفیان کو لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے میں آئے تو آپ نے دریافت فرمایا ۔
ابو سفیان ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ آپ کو یقین آ جائے کہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں :؟
ابو سفیان نے جو رات مسلمانوں میں گزاری تھی وہ اس کے دل میں بھڑکتی عداوت کی آگ بجھانے کے لئے کافی تھی اس نے کہا

میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ کس قدر متحمل مزاج و کریم اور صلہ رحمی کرنے والے انسان ہیں واللہ میں سوچتا ہوں کہ اگر اللہ کے علاوہ میرا کوئی معبود ہوتا تو وہ میرے کسی کام ضرور آتا،،
اس پر آپ نے دریافت کیا ۔
ابوسفیان کیا وہ وقت نہیں آیا کہ آپ کو یقین ہو جائے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟
ابو سفیان صاف گو آدمی تھا اس نے جواب دیا

میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ کس قدر برد بار و عزت دار اور صلہ رحمی کرنے والے انسان ہیں. واللہ اس بارے میں ابھی تک دل میں خلش سی باقی ہے

اس پر عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابو سفیان سے کہا
ابو سفیان اسلام قبول کر لو یہ شہادت دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں
ابو سفیان تھوڑی دیر خاموش رہا پھر گویا ہوا

آشھد ان لا الہ الا اللہ وآشھد آن محمد رسول اللہ

ابو سفیان کی زبان سے یہ کلمات سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا ۔

عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ابو سفیان اعزاز پسند آدمی ہے اسے کوئی اعزاز دے دیجئے

*آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے
جو شخص ابو سفیان کے گھر چلا گیا اسے امان ہے ۔*

📜 آخری بات 💫
✍🏻 یہ ذہانت نہیں کہ آپ بحث و مباحثے میں مد مقابل کو چت کر دیں ۔
بلکہ قابلیت یہ ہے کہ آپ سرے سے بحث ہی میں نہ پڑیں،،

🌷🌷🌷

Comments are closed.