بحریہ ٹاؤن کراچی کی زمین کا اصل رقبہ کیا ہے؟ عدالتی احکامات پر سندھ حکومت متحرک

کمیٹی اس بات کی تحقیقات کرے گی کہ بحریہ ٹاؤں کی کتنی زمین خریدی گئی اور کتنی پرقبضہ ہوا
karachi

کراچی: بحریہ ٹاؤن کراچی سے متعلق عدالتی احکامات پر سندھ حکومت متحرک ہوگئی-

باغی ٹی وی : باخبر ذرائع کے مطابق بحریہ ٹاؤن مجموعی طور پر کتنی زمین پر قائم ہے اور زمین کی ملکیت کے حوالے سے تحقیقات کےلیے کمیٹی قائم کردی گئی سندھ حکومت کی جانب سے کمشنر کراچی کی سربراہی میں کمیٹی بنادی گئی ہے جو سات روز میں رپورٹ تیار کرے گی،محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن نے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے جس کے تحت کمیٹی اس بات کی تحقیقات کرے گی کہ بحریہ ٹاؤں کی کتنی زمین خریدی گئی اور کتنی پرقبضہ ہوا۔

تحقیقات میں نشاندہی کی جائے گی کہ بحریہ ٹاؤن کی زمین کا اصل رقبہ کیا ہے اور بحریہ ٹاؤن نے کن شرائط پر نجی افراد سے زمینیں خریدی ہیں، کمشنر کراچی کی سربراہی میں قائم کمیٹی گوگل میپ ، نقشوں اور تصویروں کے ساتھ مکمل رپورٹ پیش کرے گی۔

اسٹیٹ بینک نےخواتین کو بلا سود قرضے کی سہولت کا آغاز کر دیا

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے عمل درآمد بینچ نے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں 16 ہزار ایکڑ زمین کی خریداری کے لیے 21 مارچ 2019 کو 460 ارب روپے کی پیش کش قبول کی گئی تھی لیکن اس کے لیے چند شرائط و ضوابط مقرر کیے تھے۔

سپریم کورٹ کے 4 مئی 2018 کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ سندھ حکومت کی جانب سے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو زمین کی منظوری، بحریہ ٹاؤن کی زمین کے ساتھ اس کا تبادلہ اور سندھ حکومت کی طرف سے کالونائزیشن آف گورنمنٹ لینڈ ایکٹ 1912 کی دفعات کے تحت جو کچھ بھی کیا گیا وہ غیر قانونی تھا زمین منافع بخش ہاؤسنگ اسکیم کے لیے دی گئی تھی لیکن ایم ڈی اے نے اس کے بجائے اپنی نجی ہاؤسنگ اسکیم شروع کرنے کے لیے بحریہ ٹاؤن کراچی کے ساتھ زمین کا تبادلہ کیا۔

میرپورخاص:پولیس کی کارروائی،3 لاکھ 70 ہزار مالیت کی شراب برآمد

بحریہ ٹاؤن کراچی نے کورونا وائرس کی وجہ سے کساد بازاری کے پیش نظر سپریم کورٹ سے ادائیگی کا منصوبہ منجمد کرنے کی درخواست کی تھی اور استدعا کی کہ 2.5 ارب روپے کی ماہانہ اقساط کی ادائیگی سات ستمبر 2020 سے ستمبر 2023 تک مؤخر کر دی جائے،16 دسمبر 2020 کو سپریم کورٹ نے کورونا وائرس سے متعلق معاشی کساد بازاری کی وجہ سے 2.5 ارب روپے کی ماہانہ قسط کے لیے بحریہ ٹاؤن کراچی کو تین سال کی چھوٹ دینے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔

یاد رہے کہ برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کی تحقیقات کے نتیجے میں بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض نے مقدمہ لڑنے کے بجائے برطانوی تحقیقاتی ایجنسی سے تصفیہ کر لیا تھا، جس کے بعد این سی اے نے 190 ملین پاؤنڈز کی رقم ریاست پاکستان کی ملکیت قرار دے دی تھی۔

موقع ملا تو سندھ کے شہروں کو لاہور اور فیصل آباد جیسا بنائیں گے،سعد رفیق …

معلومات کے مطابق یہ رقم پاکستان کے قومی خزانے میں پہنچنے کے بجائے سپریم کورٹ کے اُس اکاؤنٹ تک پہنچی جس میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کو 460 بلین روپے ایک تصفیے کے تحت قسطوں میں ادا کر رہے ہیں اور یوں برطانیہ سے ریاست پاکستان کو منتقل ہونے والی رقم ملک ریاض کے اکاؤنٹ میں سپریم کورٹ کو ادائیگی کے لیے دے دی گئی۔

نیب کے مطابق الزام یہی ہے کہ لگ بھگ 40 ارب روپے جو کہ قومی خزانے سے تھے بحریہ ٹاؤن کے قرض کی مد میں ایڈجسٹ کیے گئے۔

آٹے کی قیمت میں مزید اضافہ

Comments are closed.