تربت: بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائے سی) تربت کے غیور بلوچوں کو اپنے حقوق کے لئے احتجاج کی دعوت دینے میں ناکام رہی ہے، جس نے بلوچستان کے عوام کے حوالے سے کئی اہم سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ بی وائے سی کی جانب سے حالیہ مظاہرہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچستان کے عوام ماہرنگ بلوچ کے حقوق اور محرومی کے بیانیے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے۔احتجاج کی ناکامی کے بعد، کئی بلوچوں نے بی وائے سی کے ایجنڈے سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا ہے، خاص طور پر ماہرنگ اور سمی دین کے حالیہ بیرون ملک دوروں کے بعد۔ یہ دورے کئی بلوچوں کے لئے ایک جھنجھوڑنے کا موقع بنے، جنہوں نے حقوق کے نام پر ماہرنگ کے ایجنڈے کی حقیقت کو سمجھنا شروع کر دیا۔
بلوچستان کے لوگ، جنہوں نے طویل عرصے سے حالات کا بغور مشاہدہ کیا ہے، اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ماہرنگ ہمیشہ دہشت گردوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی ہے، لیکن جب یہ دہشت گرد حکومت پاکستان کی جانب سے فراہم کردہ سہولیات کو بم دھماکوں سے تباہ کرتے ہیں تو ماہرنگ کی خاموشی اس کی دوغلی پالیسی کو واضح کرتی ہے۔اس تناظر میں، یہ واضح ہوتا ہے کہ بلوچستان کی ترقی کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ دہشت گرد تنظیم بی ایل اے ہے، جس کی قیادت غفار لانگو کی بیٹی کر رہی ہے۔ مقامی عوام نے یہ محسوس کیا ہے کہ اس تنظیم کے دہشت گردانہ اقدامات بلوچستان کی ترقی کو متاثر کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ ایک بار پھر اپنے حقوق کے حقیقی علمبرداروں کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔
ماہرنگ بلوچ کے بیانیے اور بی وائے سی کی ناکامی نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ کیا واقعی یہ تنظیمیں بلوچ عوام کے مفاد میں کام کر رہی ہیں، یا ان کا ایجنڈا کچھ اور ہے؟ اس صورتحال نے بلوچوں کو ایک نئے غور و فکر کی طرف متوجہ کیا ہے، جہاں وہ اپنے حقوق اور ترقی کے حقیقی مسائل پر بات کرنے کے لئے تیار ہیں۔ آنے والے دنوں میں، یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ آیا بی وائے سی اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لائے گی یا یہ مظاہرین کی ناکامی ایک مستقل حقیقت بن جائے گی۔
Shares:








