بلوچی کے ممتاز شاعر اور ادیب عطا شاد کی شاد کردینے والی باتیں

0
57
balochi

پارسائوں نے بڑے ظرف کا اظہار کیا
ہم سے پی اور ہمیں رسوا سر بازار کیا

عطا شاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اصل نام :محمد اسحاق
قلمی نام:عطا شاد
تاریخ پیدائش :01 نومبر 1939ء
تاریخ وفات:13 فروری 1997ء
کوئٹہ، بلوچستان

اردو اور بلوچی کے ممتاز شاعر اور ادیب عطا شاد 1 نومبر 1939ء کو سنگانی سرکیچ، مکران میں پیدا ہوئے تھے۔
عطا شاد کا اصل نام محمد اسحاق تھا- 1962ء میں پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد وہ پہلے ریڈیو پاکستان سے اور پھر 1969ء میں بلوچستان کے محکمہ تعلقات عامہ سے بطور افسر اطلاعات وابستہ ہوئے ۔ 1973ء میں وہ بلوچستان آرٹس کونسل کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے اور ترقی کرتے کرتے سیکریٹری کے عہدے تک پہنچے۔
ان کی اردو شعری مجموعوں میں سنگاب اور برفاگ، بلوچی شعری مجموعوں میں شپ سہارا ندیم، روچ گر اور گچین اور تحقیقی کتب میں اردو بلوچی لغت، بلوچی لوک گیت اور بلوچی نامہ شامل ہیں۔ حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔
13 فروری 1997ء کو عطا شاد کوئٹہ میں وفات پاگئے۔

غزل
۔۔۔۔۔
بڑا کٹھن ہے راستہ جو آ سکو تو ساتھ دو
یہ زندگی کا فاصلہ مٹا سکو تو ساتھ دو
بڑے فریب کھاؤ گے بڑے ستم اٹھاؤ گے
یہ عمر بھر کا ساتھ ہے نبھا سکو تو ساتھ دو
جو تم کہو یہ دل تو کیا میں جان بھی فدا کروں
جو میں کہوں بس اک نظر لٹا سکو تو ساتھ دو
میں اک غریب بے نوا میں اک فقیر بے صدا
مری نظر کی التجا جو پا سکو تو ساتھ دو
ہزار امتحان یہاں ہزار آزمائشیں
ہزار دکھ ہزار غم اٹھا سکو تو ساتھ دو
یہ زندگی یہاں خوشی غموں کا ساتھ ساتھ ہے
رلا سکو تو ساتھ دو ہنسا سکو تو ساتھ دو

غزل
۔۔۔۔۔
پارساؤں نے بڑے ظرف کا اظہار کیا
ہم سے پی اور ہمیں رسوا سر بازار کیا
درد کی دھوپ میں صحرا کی طرح ساتھ رہے
شام آئی تو لپٹ کر ہمیں دیوار کیا
رات پھولوں کی نمائش میں وہ خوش جسم سے لوگ
آپ تو خواب ہوئے اور ہمیں بیدار کیا
کچھ وہ آنکھوں کو لگے سنگ پہ سبزے کی طرح
کچھ سرابوں نے ہمیں تشنۂ دیدار کیا
تم تو ریشم تھے چٹانوں کی نگہ داری میں
کس ہوا نے تمہیں پا بستۂ یلغار کیا
ہم برے کیا تھے کہ اک صدق کو سمجھے تھے سپر
وہ بھی اچھے تھے کہ بس یار کہا وار کیا
سنگساری میں تو وہ ہاتھ بھی اٹھا تھا عطاؔ
جس نے معصوم کہا جس نے گنہ گار کیا

غزل
۔۔۔۔۔
دلوں کے درد جگا خواہشوں کے خواب سجا
بلا کشان نظر کے لیے سراب سجا
مہک رہا ہے کسی کا بدن سر مہتاب
مرے خیال کی ٹہنی پہ کیا گلاب سجا
کوئی کہیں تو سنے تیرے عرض حال کا حبس
ہوا کی رحل پہ آواز کی کتاب سجا
وہ کیا طلب تھی ترے جسم کے اجالے کی
میں بجھ گیا تو مرا خانۂ خراب سجا
تمام شب تھا ترا ہجر تیرا آئینہ گر
تمام شب مرے پہلو میں آفتاب سجا
نہ تو ہے اور نہ میں ہوں نہ وصل ہے نہ فراق
سجا شراب سجا جا بجا شراب سجا
عطاؔ یہ آنکھ دھنک منزلوں کی چاہ میں تھی
چھٹا جو ابر گھنی تیرگی کا باب سجا

Leave a reply