بلوچستان کابینہ نے اہم فیصلہ کرتے ہوئے میانی ہور کو پاکستان کا تیسرا میرین پروٹیکٹڈ ایریا قرار دے دیا ہے، جس کا مقصد اس خطے کے نازک ماحولیاتی نظام اور حیاتیاتی تنوع کی حفاظت کرنا ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ترجمان کے مطابق، میانی ہور کا یہ اعلان ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے ایک سنگ میل ہے، کیونکہ یہ علاقہ اپنی نوعیت میں نہایت منفرد ہے اور پاکستان کے ساحلی علاقوں میں حیاتیاتی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔بلوچستان کی حکومت نے اس سے قبل بھی ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے قابلِ ذکر اقدامات کیے ہیں۔ 2017 میں آسٹولا آئی لینڈ کو پاکستان کا پہلا میرین پروٹیکٹڈ ایریا قرار دیا گیا تھا، جبکہ 2024 میں چرنا آئی لینڈ کو دوسرا میرین پروٹیکٹڈ ایریا بنایا گیا۔ یہ دونوں مقامات حیاتیاتی تنوع اور مرجان کیچڑ کے جنگلات کی اہم آماجگاہیں ہیں جو قدرتی ماحول کے استحکام میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے مطابق، میانی ہور ملک کے چند ایسے علاقوں میں شامل ہے جہاں قدرتی مینگروز کے جنگلات بہت ہی بھرپور انداز میں موجود ہیں۔ یہ پاکستان کا واحد مقام ہے جہاں مینگروز کی تین مختلف اقسام قدرتی طور پر پائی جاتی ہیں۔ مینگروز کے جنگلات سمندری حیات، پرندوں، اور دیگر جانداروں کے لیے محفوظ رہائش فراہم کرتے ہیں اور ساحلی خطے کو ماحولیاتی خطرات جیسے سیلاب اور سمندری طوفانوں سے بچاتے ہیں۔میانی ہور ضلع لسبیلہ میں واقع پاکستان کی سب سے بڑی لگون بھی ہے، جہاں مختلف قسم کے پرندے پائے جاتے ہیں۔ ان پرندوں کی اقسام کی بنیاد پر میانی ہور کو مئی 2001 میں رامسر سائٹ کے طور پر بھی تسلیم کیا گیا، جو اس مقام کی عالمی ماحولیاتی اہمیت کا ثبوت ہے۔ علاوہ ازیں، ستمبر 2022 میں حکومت بلوچستان نے میانی ہور کے مینگروز جنگلات کو "محفوظ جنگلات” قرار دے کر ان کی حفاظت کو مزید تقویت دی تھی۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے سینئر ڈائریکٹر رب نواز نے اس حوالے سے کہا کہ میانی ہور کا نازک میرین ماحولیاتی نظام اور حیاتیاتی تنوع اس وقت کئی ماحولیاتی خطرات کا شکار ہے۔ انہوں نے وفاقی اور دیگر ساحلی صوبوں کی حکومتوں سے اپیل کی کہ وہ بلوچستان حکومت کے اس اقدام کو اپناتے ہوئے مزید میرین پروٹیکٹڈ ایریاز کے قیام پر توجہ دیں تاکہ پاکستان کے سمندری وسائل اور حیاتیاتی ورثے کو تحفظ دیا جا سکے۔