نصیر آباد کا کمشنر ، ڈی آئی جی، ڈی سی اور ایس ایس پی ”بندوق کے سائے میں“
چھتر کے دو اسسٹنٹ کمشنرز اور ایک صحافی
چھتر کا ایس ایچ او شہریوں کے بجائے اپنی جان بچانے کی فکر میں ہوتا ہے
آغا نیاز مگسی
ضلع نصیر آباد کا چھتر شہر عام شہریوں خواہ سرکاری افسران کے لیے نو گو ایریا بلکہ سندھ اور پنجاب کے ڈاکوؤں کے ”کچے“ کے علاقہ کی مانند ہے یہاں پر کوئی بھی محفوظ نہیں ہے ۔ گزشتہ 40 سال سے بلوچستان حکومت چھتر کے علاقہ کو محفوظ علاقہ نہیں بنا سکی اور نہ ہی یہاں پر اسسٹنٹ کمشنر کو اس کے دفتر میں بٹھا سکی ہے ما سوائے دو اسسٹنٹ کمشنرز کے ۔ 1995 میں سردارزادہ سرفراز احمد ڈومکی کو اسسٹنٹ کمشنر تعینات کیا گیا۔ وہ پہلے اسسٹنٹ کمشنر تھے جو اپنے دفتر میں بیٹھنے لگے اور اسی دور میں چھتر کی تاریخ کا واحد صحافی میں (آغا نیاز مگسی) تھا جو وہاں ڈیرہ مراد جمالی سے روزنامہ انتخاب حب \کراچی کے نامہ نگار کی حیثیت سے رپورٹنگ کرنے کے لیے گیا جہاں مجھے دیکھ کر چھتر کے مکین حیران ہو گئے میں نے سرفراز خان ڈومکی سے ملاقات کر کے وہاں کی انتظامی صورتحال کا جائزہ لیا اور اس کے بعد مجید شاہ کہیری کے ساتھ چھتر شاہ کا جائزہ لیا اور یہاں کے شہریوں کے مسائل معلوم کیے۔ چھتر کے شہریوں نے مجھے ایک مرشد کی طرح کا احترام اور پروٹوکول دیا تھا اور وہ رات میں نے وہاں قیام کیا تھا ۔ سرفراز خان ڈومکی نے اپنے والد سردار چاکر خان ڈومکی کی وفات پر اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے سے استعفی دے دیا اور اپنے والد کی جگہ ڈومکی قبیلے کا سردار بنا ۔ سردار سرفراز خان اس وقت بلوچستان کے صوبائی وزیر بلدیات ہیں ۔ سردار سرفراز کے کافی عرصہ بعد محمد عظیم عمرانی دوسرے اسسٹنٹ کمشنر تھے جو وہاں اپنے دفترمیں بیٹھنے لگے اس کے بعد آج تک دوسرا کوئی اسسٹنٹ کمشنر چھتر میں نہیں بیٹھ سکا ہے .
وہاں کے امن و امان کی صورتحال اور خوف کا یہ عالم ہے کہ نصیر آباد کے کمشنر،ڈپٹی کمشنر، ڈی آئی جی اور ایس ایس پی سخت سیکورٹی اور پیرا ملٹری فورس کے تعاون کے بغیر چھتر کا ”وزٹ“ تک نہیں کر سکتے ۔ چھتر کا ایس ایچ او مقرر ہونا اپنی موت کے وارنٹ پر دستخط کرنے کے مترادف ہے چناںچہ چھتر کا ایس ایچ او شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کی بجائے ہر وقت اپنی جان بچانے کی فکر میں رہتا ہے ۔ چھتر اور اس کے گرد و نواح کے شہری ایف سی \پیراملٹری فورس کی وجہ سے وہاں مقیم ہیں ورنہ چھتر کا علاقہ عام شہریوں کی آبادی سے خالی اور کچے کی طرح ڈاکوؤں کی آماجگاہ بن چکا ہوتا ۔ جس علاقے کا اسسٹنٹ کمشنر اپنے دفتر نہیں بیٹھ سکتا اور جہاں کا کمشنر، ڈی آئی جی، ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی بندوق کے سائے میں کئی سال بعد ایک دو گھنٹے کا وزٹ کر کے آئے تو اس علاقہ کے مکینوں کی زندگی کس طرح گزرتی ہے اس صورتحال کو سمجھنا کوئی مشکل نہیں ہے ۔
بلوچستان سے بگٹی قبیلے کے کچھ افراد کچے کے ڈاکوؤں سے لڑنے کے لیے گئے ہیں ان سے پوچھا جائے کہ وہ چھتر کو ڈاکوؤں سے کب خالی کرائیں گے .؟