بلوچستان کا پانی سندھ میں چوری ہو رہا ہے،قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل میں انکشاف

بلوچستان کا پانی سندھ میں چوری ہو رہا ہے،قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل میں انکشاف
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ارسا کا کہنا ہے کہ بلوچستان کو بائیس سے چوالیس فیصد پانی کی کمی کا سامنا ہے،بلوچستان کا پانی سندھ میں چوری ہو رہا ہے

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کوحکام نے بتایاکہ بلوچستان کو بائیس سے چوالیس فیصد پانی کی کمی کا سامنا ہے۔بلوچستان کا پانی سندھ میں چوری ہو رہا ہے، پانی مشترکہ مسئلہ ہے بجلی ہو یا پانی دونوں کی چوری ہوتی ہے۔ صوبے ایک دوسرے کو الزام دینے کی بجائے مسئلے پر توجہ دیں۔کمیٹی نے چراح ڈیم منصوبہ ختم کرنے پروزارت آبی وسائل کی سفارش پر سیکرٹری محکمہ آبپاشی پنجاب کو طلب کر لیا۔

محکمہ آبپاشی پنجاب نے بتایاکہ چراح ڈیم فنڈنگ میں تاخیر کی وجہ سے منصوبہ کی لاگت بڑھ کر بیس ارب تک پہنچ گئی ہے ہم نے منصوبہ ختم کردیاہے،وفاق نے کابینہ کے ذریعے پنجاب کو ایک ارب روپے دیے،چراح ڈیم منصوبہ ختم کرناہے تو ہمیں رقم واپس کر دے،ارکان کمیٹی نے کہاکہ پانی چاہیے منصوبے کو کیسے ختم کر سکتے ہیں، اسلام آباد کے لئے چھ ڈیم بننے ہیں جس طرح یہ منصوبہ پھنسا ہوا ہے باقیوں کا کیا ہو گا۔

جمعرات کوقومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کا اجلاس نواب یوسف تالپور کی زیر صدارت ہوا۔اجلاس میں وفاقی وزیر آبی وسائل فیصل واوڈاسمیت حکام نے کمیٹی میں شرکت کی۔چیئرمین ارسا زائد عباسی نے کمیٹی کوبتایاکہ مشترکہ مفادات کونسل میں بلوچستان کے پانی کا معاملہ گیا تھا۔ بلوچستان کو بائیس فیصد سے چوالیس فیصد کمی کا سامنا ہے۔بلوچستان کا پانی سندھ میں چوری ہو رہا ہے۔ ممبر سندھ نے کہاکہ پی سی آر ڈبلیو آر کے ساتھ جا کر سائیٹ کا دورہ کرلیتے ہیں۔

خالد حسین مگسی نے کہا کہ جیکب آباد میں پوری نہر کو بیچ دیا جاتا ہے۔ ہمارے مسئلے کا حل ہمیں پانی دیں۔ سندھ کا ڈیپارٹمنٹ چوری نہیں کرتا وہ چوری کنٹرول نہیں کرتا۔ حکام وزارت آبی وسائل نے کہاکہ ٹیلی میٹرنگ کے عمل پر کام ہو رہا ہے۔سیکرٹری آبی وسائل منیر اعظم نے کہا کہ پانی ہمارا مشترکہ مسئلہ ہے۔ چوری چاہے بجلی ہو یا پانی،وہ ہوتی ہے۔ صوبے ایک دوسرے کو الزام دینے کی بجائے مسئلے پر توجہ دیں۔ چیئر مین ارسا نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل سندھ اور بلوچستان کے پانی کے مسائل پردونوں صوبوں کے وزرائے اعلی کو بیٹھ کر معاملہ حل کرنے ہدایت کر چکی ہے۔ابھی تک دونوں صوبوں کے وزرائے اعلی اس معاملے پر بات چیت نہیں ہوئی۔پانی کی دس فیصد کمی ہے۔

کمیٹی نے سیکرٹر ی آبپاشی پنجاب کی عدم شرکت پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے رکن کمیٹی علی اعوان کی آئندہ اجلاس میں سیکرٹر ی آبپاشی پنجاب کی عدم حاضری پر ان کی تنخواہ بند کرنے کی تجویز دی۔محکمہ آبپاشی پنجاب نے کہاکہ چراح ڈیم کے لئے فنڈنگ نہ ملنے کی وجہ سے تاخیر ہوئی۔ تاخیر کی وجہ سے زمین کی قیمت بھی بڑھی۔منصوبہ کی لاگت بڑھ کر بیس ارب تک پہنچ گئی ہے۔ پنجاب اس منصوبے کی لاگت بڑھنے کی وجہ سے اس میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ اسلام آباد اس منصوبے کو بنانا چاہتا ہے تو اپنے پیسوں خود بنا لے۔

تحریک انصاف کے رکن علی اعوان نے کہاکہ پانی چاہیے منصوبے کو کیسے ختم کر سکتے ہیں اسلام آباد میں ہاوسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں۔ پہلے بھی واپڈا نے راول ڈیم بنایا، یہ منصوبہ بھی واپڈا کو دیا جائے۔ یہ منصوبہ اسلام آباد کے لئے مفید ہے۔حکام آبی وسائل نے کمیٹی کوبتایاکہ جاپان حکومت اس منصوبے کو اپنے پیسوں سے کرنے کو تیار تھے۔پنجاب حکومت نے جاپان سے منصوبہ کرانے کی بجائے اے ڈی بی سے کرانے کا کہا۔ یہ منصوبہ بننا چاہیے ورنہ صورتحال مزید خراب ہو گی۔

یوسف تالپور نے کہاکہ اسلام آباد کے لئے چھ ڈیم بننے ہیں جس طرح یہ منصوبہ پھنسا ہوا ہے باقیوں کا کیا ہو گا۔ جوائنٹ سیکرٹری آبی وسائل مہر علی شاہ نے کہاکہ وفاقی حکومت پیسے کابینہ کے ذریعے دے چکا ہے پنجاب اس منصوبے کو جاری نہیں رکھنا چاہتا تو ایک ارب روپے ہمیں واپس کر دے۔ اگر ان پیسوں سے اراضی خریدی گئی ہے تو وفاق کو ٹرانسفر کر دے۔ کمیٹی نے وزارت آبی وسائل کی سفارش پر سیکرٹری محکمہ آبپاشی پنجاب کو طلب کر لیا۔

رپورٹ. محمد اویس، اسلام آباد

Comments are closed.