بلوچستان پولیس کی کرپشن کہانی ،تحریر: آغاز نیاز مگسی

قصے اور کہانیاں \ آغا نیاز مگسی

بلوچستان کے محکمہ پولیس میں کرپشن کے انداز ہی نرالے ہیں ۔ ویسے اگر اس کا دیگر صوبوں سے موازنہ کیا جائے تو اخلاقیات کے لحاظ سے سندھ اور پنجاب پولیس کی نسبت بلوچستان پولیس بہت بہتر بلکہ قابل ستائش فورس ہے ۔ سندھ اور پنجاب پولیس کا عام شہریوں کے ساتھ رویہ انتہائی غیر مناسب ہوتا ہے جبکہ گرفتار یا زیر حراست ملزمان کے ساتھ ان کا رویہ غیر اخلاقی بلکہ غیر انسانی سلوک ہوتا ہے گالی گلوچ اور کرپشن تو ان کے منشور کا حصہ ہوتا ہے زیر حراست یا گرفتار ملزمان کو بدترین تشدد کے علاوہ” ہاف فرائی اور فل فرائی “کی اصطلاح کے تحت زخمی اور ہلاک کرنے کے عمل کو پولیس کے ساتھ مقابلہ قرار دینا ان کے معمول کا حصہ ہے لیکن اس کی نسبت بلوچستان پولیس کا عام شہریوں خواہ ملزمان دونوں کے ساتھ دوستانہ رویہ ہوتا ہے ہاف فرائی اور فل فرائی کا یہاں تصور ہی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود کرپشن کے حوالے سے بلوچستان پولیس بھی کسی سے کم نہیں ہے ۔ چیک پوسٹ ، قومی شاہراہ ، اسمگلنگ اور تھانوں ، منشیات و قماربازی اور فحاشی کے اڈوں سے روزانہ یا ماہانہ بھتہ وغیرہ ان کے روز و شب کے معمولات کا حصہ ہیں ۔ قومی شاہراہ پر تعینات پولیس افسران اور اہلکاروں کی چاندی ہوتی ہے وہ دن رات پیسہ بٹورنے میں مشغول رہتے ہیں منشیات ، ایرانی پیٹرول و دیگر اشیاء اور گاڑیوں کے اسمگلرز سے ان کا لین دین ہوتا ہے ایک اندازے کے مطابق بلوچستان بھر کی قومی شاہراہوں اور چیک پوسٹوں سے پولیس کو مجوعی طور پر روزانہ کروڑوں روپے کی آمدن ہوتی ہے اور یہی صورتحال صوبے کے شہروں اور قصبات میں قائم منشیات اور قمار بازی کے اڈوں کی ہے جہاں پولیس اور مذکورہ اڈہ مالکان کے درمیان معاملات طے شدہ ہوتے ہیں جن کے خاموش معاہدے کے نتیجے میں معاشرے میں مختلف قسم کی برائیاں جنم لیتی ہیں جن کی ذمہ داری پولیس پر عائد ہوتی ہے ۔ مشیات کے کاروبار اور استعمال سے ہماری نئی نسل بری طرح متاثر ہو کر اپنے خاندان اور ملک و قوم پر بوجھ بن جاتا ہے جس سے وہ اخلاقی پستی میں داخل ہو جاتی ہے جس سے بےشمار برائیوں کو فروغ مل رہا ہوتا ہے ۔

بلوچستان کا صوبہ کافی عرصہ سے دہشت گردی کا شکار ہے جس میں عام شہریوں کے علاوہ پولیس افسران اور اہلکاروں کی بھی بڑی تعداد نشانہ بنتی ہے جس کے نتیجے میں وہ شہید اور زخمی بن جاتے ہیں اور دہشت گردی کے اکثر واقعات سیکورٹی کے ناقص انتظامات کے باعث پیش آتے ہیں ۔ ایک اطلاع کے مطابق بلوچستان کے چار اضلاع کوئٹہ ، گوادر ، حب اور لسبیلہ 2020 سے 2600 پولیس اہلکار سرکاری ڈیوٹی دینے کے بجائے بااثر سیاسی و قبائلی شخصیات گن مین یا سیکورٹی گارڈ کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اور تنخواہ سرکار سے وصول کر رہے ہیں ان کی تخواہوں کی مد میں سالانہ ڈھائی ارب روپے کی رقم قومی خزانے سے جاری ہوتی ہے یہ وہ اہلکار ہیں جو پہلے لیویز فورس میں تھے 2020 میں بلوچستان پولیس میں ضم کر دیئے گئے اور اس وقت سے اب تک کھاتے پہ چل رہے ہیں جن کی تنخواہوں کا بڑا حصہ ان کے افسران کی جیب میں چلا جاتا ہے لیکن اس کا نقصان بلوچستان پولیس میں نفری کی کمی کے باعث چوری ،ڈکیتی اور دہشت گردی کے واقعات کی صورت میں بلوچستان کے شہریوں کا ہوتا ہے۔ یہ تو صرف چار اضلاع کے 2600 پولیس اہلکار ہیں جو کھاتے پر چل رہے ہیں صوبے کے باقی اضلاع کی کھاتے پر چلنے والے پولیس اہلکاروں کی مجموعی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جن میں سے نصف تعداد سیاسی و قبائلی شخصیات کے ذاتی محافظ بنے ہوئے ہیں اور نصف تعداد اپنے ذاتی کاروبار میں مشغول رہتی ہے ۔ یہ وہ صورتحال ہے جس کی وجہ سے بلوچستان پولیس کا محکمہ نفری کی کمی کا سامنا کر رہا ہے جس کی وجہ سے شہریوں کی جان و مال اور قومی املاک کا مناسب تحفظ نہیں ہو رہا ہے چناں چہ بلوچستان کو ایک ایسے چیف ایگزیکٹو کی ضروت ہے جو حقیقی معنوں میں بااختیار اور اپنے صوبے اور مخلص و دیانتدار ہو تب ہی بلوچستان پولیس میں اصلاحات ممکن ہو سکیں جس سے کرپشن میں کمی اور سیکورٹی کی صورتحال بھی بہتر ہو سکے گی ۔

Comments are closed.