بلوچستان میں بھارت کا بڑا منصوبہ ناکام ہوگیا ہے ۔ کڑی نگرانی اور جدید تفتیشی طریقوں نے ایک اور بھارتی نیٹ ورک کو بے نقاب کر دیا ۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے حالیہ چھاپوں میں اُن 9افراد کو گرفتار کیا جو بھارتی خفیہ ایجنسی را کی پشت پناہی سے چلنے والی دہشت گرد تنظیم فتنہ الہندوستان بی ایل اے کیلئے مخبری اور لوجسٹکس کا کام کر رہے تھے۔ ان کے قبضے سے سیٹلائٹ فونز، ہندوستانی سِم کارڈز اور غیر ملکی کرنسی برآمد ہوئی ہے اور بھارت کی ایما پر یہ دہشت گردی کا بڑا حملہ کرنے کی پلاننگ کررہے تھے ۔

گرفتار شدگان کی تفصیلی پروفائل ظاہر کرتی ہے کہ یہ کوئی عام افراد نہیں تھے بلکہ ایک منظم نیٹ ورک کا حصہ تھے جو فتنۂ الہندوستان بی ایل اے کے لیے سرگرمِ عمل تھے۔ کلی داتو مستونگ سے تعلق رکھنے والے عابد حسین دہشت گرد تنظیم کا لاجسٹک فنانسر تھا، جس کے قبضے سے ایک سیٹلائٹ فون (SIM: +881…) اور CPEC روٹ میپ والی ڈرائیو برآمد ہوئی۔

عبدالرزاق، کلی منگلاباد کوئٹہ سے سگنل رنر کے طور پر کام کر رہا تھا، اس کے پاس سے 27 خفیہ آڈیو کلپس والی فلیش ڈرائیو برآمد ہوئی۔ اسی علاقے سے تعلق رکھنے والا محمد اسحاق موٹر سائیکل پر مشکوک سرگرمیوں کی ریکی کرتا تھا، جس کے پاس سے VR گوگل میپ کی آفلائن فائلیں ملیں۔ادھر عبدالمجید ، جو خضدار کے علاقے گازگی کا رہائشی ہے، سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کا مرکزی چہرہ تھا اس کے ڈیجیٹل آلات سے بی ایل اے کے فیک اکاؤنٹس کی فہرست ملی۔ جئند ولد لیاقت کیچ کے علاقے بغ میری سے، چیٹ موڈیولیٹر کے طور پر متحرک تھا اور اس کے لیپ ٹاپ سے پراجیکٹ نترَاج کا مکمل سورس کوڈ حاصل ہوا جو بھارتی انٹیلی جنس سے تعلق ظاہر کرتا ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ صفی اللہ ولد غلام نبی، مستونگ کے علاقے کڈکوچہ سے، ہاؤس فنانس چینل چلا رہا تھا جس کے ذریعے دہشت گردی کی فنڈنگ کی جاتی تھی؛ اس کے اکاؤنٹ سے دبئی کے FZE والیٹ کے ذریعے 38,000 امریکی ڈالر کی ٹرانزیکشن کا سراغ ملا۔ آخر میں گوہر بخش، سردشت کلانچ پسنی سے، ساحلی نگرانی کے لیے ڈرون آپریٹر کے طور پر کام کر رہا تھا، جس کے قبضے سے بندرگاہ کی حساس ویڈیو فیڈز پر مشتمل ڈرون کلپس برآمد کیے گئے۔ ان تمام افراد کی گرفتاری سے واضح ہوتا ہے کہ یہ ایک مربوط نیٹ ورک تھا جو پاکستان کے امن و استحکام کو سبوتاژ کرنے کی عالمی سازش میں سرگرم تھا۔

ان چھوٹے مگر طاقت ور تھریا سیٹس پر سرگرم +881 سیریز کے نمبروں کی کل 312 کالیں ریکارڈ ہوئیں جن میں سے 47 براہِ راست ہندوستان کے راجستھان علاقے کی بی ایل اے سپلائی لائن میں سرگرم فیلڈ کمانڈر کودنیم دُرگا شنکر کو گئی تھیں۔ انٹر سروسز سائبر ڈویژن کی ڈیپ پیکٹ انالیٹکس کے مطابق ایک مخصوص کال میں 14 اگست 2025 (یومِ آزادی) کو گوادر-کراچی CPEC کارواں پر بیک وقت تین وی بی آئی ایِڈی دھماکوں کی ہدایات دی گئیں۔

خفیہ دستاویز RAW-BH/OP Code-984 اشارہ کرتی ہے کہ نترَاج اصل میں بی ایل اے کی وہ تازہ ترین حکمتِ عملی ہے جس میں بلوچستان کے ساحلی شہروں سے لے کر افغان سرحدی پٹی تک سیٹلائٹ فون رِلے بنائے گئے۔ ہر رِلے میں ایک نوجوان اسٹوڈنٹ کو فرنٹ فیس بنا کر رکھا جاتا، تاکہ گرفتاری کی صورت میں انسانی حقوق کارڈ کھیلا جا سکے۔ جئند اور عبدالرزاق اسی سیل کے مبینہ فِکس پوائنٹس تھے۔

فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کے مطابق Saffron Rise Pvt. Ltd. (دبئی) سے USDT میں آنے والی رقوم کڈکوچہ اور مستونگ کے چھوٹے بزنس اکاؤنٹس میں پارک کی گئیں، جہاں سے کیش نکال کر اسمگل چینل کے ذریعے افغانستان بھیجا جاتا رہا۔ صفی اللہ اس سہولت کا منی پشر تھا اسی کے گھر سے GCC FIU Joint Circular 04/24 میں درج والیٹ کی پرنٹڈ ریکوری فریز ملی۔

اس نیٹ ورک کی گرفتاری کوئی اتفاقیہ واقعہ نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے ماہرانہ انٹیلی جنس ورک اور مسلسل نگرانی کا نتیجہ ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پہلی بڑی کامیابی اُس وقت ملی جب وائر ٹیپ 17-B/25 کے تحت ایک حساس کال ریکارڈ کی گئی، جس میں موٹر سائیکل کے ریف نمبر کو بطور یک طرفہ کوڈ ورڈ استعمال کیا جا رہا تھا یہ ایک ایسا طریقہ تھا جس کے ذریعے پیغامات خفیہ انداز میں منتقل کیے جاتے تھے۔ دوسری جانب، ڈرون فیڈ اینالیٹکس کے ذریعے گوہر بخش کے زیر استعمال DJI Mavic ڈرون سے حاصل کردہ بندرگاہی نگرانی کی ویڈیوز نے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ حساس تنصیبات کی ریکی میں ملوث تھا۔

اس کے علاوہ، CTD کی جانب سے ہنومن پراکسی کے ڈی کرپٹ ہونے کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ مجید بلوچ نے بی ایل اے کے لیے 400 سے زائد فیک ٹوئٹس کو ہینڈل کیا، جن میں دہشت گرد حملوں کو انسانی حقوق کی جدوجہد کا رنگ دے کر عالمی ہمدردی سمیٹنے کی کوشش کی گئی۔ یہ تمام شواہد اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ کوئی مقامی یا غیر منظم گروہ نہیں بلکہ ایک مکمل طور پر منصوبہ بند، ٹیکنالوجی سے لیس اور بھارتی سرپرستی یافتہ نیٹ ورک تھا جسے پاکستانی اداروں نے بروقت کارروائی کرکے بے نقاب کر دیا۔

کراچی سے زکریا اسماعیل کو بھی گرفتار کیا گیا ہے جو کہ خضدار میں اسکول بس حملے میں ملوث تھا ۔ بلوچستان میں پُرامن ترقی کے سفر کو سبوتاژ کرنے کے لیے دشمن قوتیں ایک مرتبہ پھر سیٹلائٹ فونوں، کرپٹو کرنسی اور جذباتی پروپیگنڈے کا سہارا لے رہی تھیں۔ لیکن پاکستانی ادارے نہ صرف زمینی بلکہ سائبر میدان میں بھی پوری طرح مستعد ہیں۔

Shares: