جب بھی بانی پی ٹی آئی نے بلایا ملاقات کیلئے چلا جاؤں گا۔ فواد چوہدری

فواد چودھری کاکہنا ہےکہ تحریک انصاف احتجاج کی بجائے سینیٹ و قومی اسمبلی میں احتجاجی کیمپ لگائیں۔ فواد چودھری نے پی ٹی آئی کے رہنمائو ں کو مشورہ دیتے ہوئے کہاکہ تحریک انصاف احتجاج کی بجائے سینیٹ و قومی اسمبلی میں احتجاجی کیمپ لگائیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت جانے کے بعد سب سے زیادہ تکالیف ہم نے برداشت کیں ، حکومت کے بعدکچھ لوگ ملک سے باہر چلے گئے اور کسی نے جیلیں کاٹیں،پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت میں عمر ایوب کے علاوہ کسی نے سیاست نہیں کی، یہ تو ڈیڑھ سال میں اپنا سیاسی قد تک نہیں بنا سکے۔اس وقت بانی پی ٹی آئی کو معلومات، ایڈوائزاور پھر اس پر عملدرآمد چاہیے لیکن موجود قیادت کے پاس وہ اسٹریٹجی ہی نہیں ہے۔فواد چودھری کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کے بعد شاہ محمود قریشی ، پرویز الہیٰ اور اسد قیصر پارٹی کو سہارا دے سکتے ہیں ، کیونکہ موجودہ قیادت کی سیاسی حکمت عملی سے بانی پی ٹی آئی کو جیل میں نہیں نکالا جا سکتا ،ان کے پاس اسٹریٹجی نظر نہیں آتی۔
فواد چودھری نے مزید کہاکہ جو لوگ بانی تحریک انصاف سے مل رہے ہیں وہ کسی پوزیشن میں نہیں کہ کوئی انفارمیشن دے سکیں، شبلی فراز میرا اچھا دوست لیکن وہ سیاست میں اتنا عبور نہیں رکھتے جو رکھنا چاہیے، میری بات علی امین گنڈاپور اور دیگر سیاسی لوگوں سے ہوتی رہتی ہے ، احتجاج سے غریب لوگوں کو تکلیف ہو گی اور غریب ہی گرفتار ہوگا۔انہوں نے کہا کہ شیخ رشید کے ساتھ موجودہ قیادت نے بہت زیادتی کی اور بانی تحریک انصاف کو شیخ رشید بارے میں غلط اطلاعات دی گئیں۔ فواد چودھری نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی کو میں نے مشورہ دیا تھا کہ اپنی نئی پارٹی کا نام مسلم لیگ رکھیں کیونکہ یہ بات طے ہے کہ ن لیگ آنے والے وقتوں میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گی اور اس وقت مسلم لیگ ن کے اندر کافی دھڑے بن چکے ہیں، اس وقت ان کا ٹارگٹ اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے پی ٹی آئی کو ختم کرنے کا ہے اور پھر وہ مستقبل کا دیکھیں گے۔فواد چودھری نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان ، جماعت اسلامی ، پی ٹی آئی ، جی ڈی اے انہیں اکھٹا ہونا پڑے گا، میری حافظ نعیم سے بھی تفصیلی ملاقات ہوئی ہے، اپوزیشن کی تمام جماعتیں متحد ہونا چاہتی ہیں، اس اتحاد کو قائم کرنے کیلیے خیبرپختونخوا میں سپیکر جبکہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ کا عہدہ جے یو آئی کو دینا چاہیے جبکہ سندھ میں جی ڈی اے کو نمائندگی دی جانی چاہیے۔

Comments are closed.