"بھائی باہر کے ملک کا ویزا لگوا دو!!”

"صاحب نوکری دلوا دو!!”

اس طرح کے کئی جملے میں اور ہم جیسے کئی لوگ جو حالات سے لڑتے اپنی زندگی کے کسی مستحکم مقام پر پہنچ چکے ہوتے ہیں، اُنکو روز سُننے کو ملتے ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ پاکستان جیسا ملک جہاں انسانی اور قدرتی وسائل کی کمی نہیں ، وہاں اس ملک کی پیدائش سے لیکر اب تک غربت اور بے روزگاری ایک بڑا مسئلہ کیوں ہے؟

بہت سے لوگ آپکو یہ کہیں گے کہ ہمارے سیاستدان نکھٹو ہیں، اقتدار میں بیٹھے لوگوں کو عوام کا احساس نہیں وغیرہ وغیرہ مگر کوئی آپکو مکمل حقیقت نہیں بتائے گا۔ ایسے کہ اپ سمجھ سکیں کہ اصل مسائل ہیں کیا۔ معلومات کا مکمل ادراک نہ ہونے پر آپ محض سرسری طور پر مسائل بتاتے ہیں مگر اُنکا حل نہیں ڈھونڈ پاتے۔ سائنس کی یہ خوبی ہے کہ وہ اپکو مسائل کی جڑ تک لیکر جاتی ہے۔ کسی بھی مسئلے کو چند ایکوئیشنز اور نمبرز کی صورت آپ پر واضح کرتی ہے کہ کس جگہ کیا غلط ہے۔ آج دنیا میں بنیادی سائنس کے علاوہ دو اور اہم چیزوں پر زور دیا جاتا ہے۔ معیشت اور امن و استحکام ۔ سائنس کی دنیا کے سب سے بڑے انعام نوبل پرائز آج بنیادی سائنس کے علاوہ معیشت اور امن کے شعبوں میں بھی ملتے ہیں۔

معاشیات کی سائنس بے حد دلچسپ ہے۔ پرانے زمانے میں لوگ معاشیات کو اتنا نہیں سمجھتے تھے نہ ہی معیشت اس قدر پیچیدہ تھی۔ آج مگر دُنیا بدل چکی ہے۔ ہمیں سائنس کے ہر اُس شعبے میں بھی ماہرین درکار ہیں جو معاشرے کو ایک الگ زاویے سے پرکھیں۔ یہ سوشل سائنٹسٹ کہلاتے ہیں۔ ان لوگوں کا کام معاشرے کو ایک قدم پیچھے ہٹ کر یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ دنیا کی آبادی کے رجحانات کیا ہیں۔ معاشروں کے رویوں کو جانچنا اور ان پر اطلاق شدہ ماضی کی پالیسیوں کا جائزہ لینا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں چند گھسے پٹے جملے بول تو دیے جاتے ہیں مگر عوام اور اشرافیہ چونکہ رٹے کی پیدوار تعلیم نظام سے ہو کر آتی ہے، اسلئے سمجھتا کوئی کدو ہے۔ ہم جب یہ کہتے ہیں کہ "ماضی سے سبق سیکھنا چاہیے” تو یہ بس کہہ دیتے ہیں۔ علم اس قدر سطحی ہے کہ یہ جملہ کہنے والے کو ٹٹولیں تو سامنے کدو بیٹھا نظر آئے گا۔

پاکستان کی کل آبادی 2017 کی مردم شماری کے مطابق تقریباً 22 کروڑ تک ہے۔ اور اب 5 سال مزید گز جانے کے بعد یہ تعداد 23 کروڑ سے زیادہ ہو چکی ہو گی۔ کیونکہ پاکستان میں آبادی کی شرح نمو سالانہ 2 فیصد سے بھی زیادہ ہے، جبکہ بھارت اور بنگلہ دیش میں یہ شرح 1 فیصد کے قریب رہ گئی ہے۔ پاکستان میں بچے خرگوشوں کیطرح پیدا کیے جاتے ہیں۔سننے میں آپکو یہ برا لگے مگر حقیقت یہی ہے۔ نفسیات دیکھیں تو چونکہ ملک میں تفریح کے مواقع کم ہیں تو لوگوں کے پاس "کھابے” کھانے اور بچے پیدا کرنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں۔ اسکے علاوہ پاکستان میں نظریات کی بھینٹ چڑھی عوام فیملی پلاننگ کو حرام سمجھتی ہے۔ گنگا ہی اُلٹی بہتی ہے۔ جو جتنا غریب ہے اُتنا ہی بڑا بچے پیدا کرنے کی مشین ہے۔ زچہ کو مشین بنا کر رکھ دینے والے معاشرے کا حال یہ ہے کہ نوزائیدہ بچوں کی اموات کے حوالے سے پاکستان دنیا کے پہلے دس ممالک کی فہرست میں آتا ہے۔ یہاں ہر 1 ہزار پیدا ہوئے بچوں میں سے 58 بچے پیدائش کے کچھ عرصے بعد مر جاتے ہیں۔ زیادہ نہیں محض 20 سال پیچھے چلے جائیں تو یہ تعداد ہر ایک ہزار میں سے 90 تھی۔ صحت اور تعلیم کی کمی کے باوجود لوگ ہیں کہ بے دھڑک بچوں پر بچے پیدا کیے جا رہے ہیں۔ عقل کی بات کیجئے تو آپ سب کے دشمن ۔ جہالت عام بکتی ہے۔ دماغ خرچ کرنا مسئلہ ہے۔ کبھی کبھی لگتا ہے لوگوں کو جاہل رہنے میں مزا آتا ہے۔ کہ شاید یہ بھی تفریح کے مواقع کی کمی کے باعث ایک تفریح بن گئی ہے۔ پر کیا کیجئے۔ مسائل بتاںا بھی ضروری ہیں کہ ہم معاشرے سے کٹ کر بھی تو نہیں رہ سکتے۔

1974 سے 2020 تک یعنی 46 سال کے پاکستان کے بے روزگاری اور معیشت کے اعداد و شمار کو کنگھالیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ملک کی معیشت میں اضافہ، آبادی میں اضافہ اور بے روزگاری میں اضافہ آپس میں یوں جڑے ہوئے ہیں جیسے نشے سے اُسکا عادی۔
ان اعداد شمار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بے روزگاری کی شرح میں محض 1 فیصد اضافے سے جی ڈی پی میں تقریباً 0.6 کمی واقع ہوتی ہے۔ گویا 2020 کے جی ڈی پی 267 ارب ڈالر کے حساب سے 1.7 ارب ڈالر کی کمی۔ وجہ؟ جب بے روزگاری بڑھتی ہے تو مارکیٹ میں خریداروں کی تعداد کم ہو جاتی ہے، لوگوں کی قوتِ خرید متاثر ہوتی ہے۔ پیسہ جیب سے نکل کر بازار کی ہوا نہیں کھاتا۔ فرض کیجئے ایک ریڑھی والا روز 50 کلو فروٹ بیچتا ہے۔ اور آپ کی جب نوکری ہے تو اپ ہر روز 2 کلو فروٹ خریدتے ہیں۔ اب جب اپکی نوکری نہیں ہو گی تو ریڑھی والے کا دو کلو فروٹ کم ِبِکے گا۔ وہ پہلے جس شخص سے دو کلو فروٹ زیادہ لیتا تھا اب کم لے گا اور اُسکا منافع بھی کم ہو جائے گا۔۔ وہ شخص جو اس ریڑھی والے کو فروٹ بیچتا تھا وہ کاشتکار سے فروٹ کم لے گا وغیرہ وغیرہ، کاشتکار کھاد کم لے گا، کھاد والا فیکٹری سے کھاد کم لے گا، فیکٹری کھاد کم بنائے گی اور اسی طرح ہر وہ شخص جو کسی نہ کسی طرح اپ کے ذریعے معیشت کے اس جال میں جڑا ہے، اُسکی زندگی میں پیسے کی کمی آئے گی۔

بالکل ایسے ہی جب مہنگائی بڑھتی ہے اور قوتِ خرید کم ہوتی ہے تو پوری معیشت میں یہ کمی دکھتی ہے۔ پاکستان میں ایک فیصد مہنگائی بڑھنے سے جی ڈی پی تقریباً 0.4 فیصد کم ہوتا ہے۔ اسی طرح حکومت کے غیر تعمیری اخراجات سے بھی معیشت پر بے روزگاری اور مہنگائی سے بھی زیادہ بُرا اثر پڑتا ہے ۔ سرکاری عیاشیوں میں محض 1 فیصد اضافے سے جی ڈی بھی کو 0.8 فیصد نقصان پہنچتا ہے یعنی سالانہ 2 ارب ڈالر سے بھی زائد۔ مگر سب سے دلچسپ جو ملک کے مءترم بابوں کی نا اہلی کا کھلا ثبوت ہے وہ ایک تحقیق میں سامنے آئی۔ وہ یہ مملکتِ خداد میں باہر سے انے والی ڈائریکٹ انوسٹمنٹ میں ایک فیصد کے اضافے سے معیشت کو اُلٹا 0.7 فیصد نقصان پہنچتا ہے۔ یعنی گنگا اُلٹی نہیں بلکہ بہتی ہی نہیں ہے۔ دیگر ممالک خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک میں معیشت باہر کے آئے پیسے سے مستفید ہوتی ہے جبکہ ہمارے ہاں کمزور قوانین اور فی البدیہ مشاعرے کی طرح چلتے ملک میں یہ بھی ان دھوپ میں بال سفید کیے پالیسی ساز بابوں کا دیا وبال ہے۔ باہر سے آئی کمپنیاں یہاں کی معاشی پالیسویں اور حکومت سازی ہر اثرانداز ہو کر ملک کی معیشت کو فائدے کی بجائے نقصان پہنچاتی ہیں۔ مسئلہ انوسٹمنٹ کا نہیں، ان کمپنیوں کا ملک کے اندرونی معاملات اور قوانین میں مداخلت کا ہے۔

ان تمام مسائل کا ادراک ہونے کے بعد آپ واضح طور پر سمجھ گئے ہونگے کہ پاکستان میں پالیسی سازوں کو زیادہ سے زیادہ تعمیراتی کاموں کے پراجیکٹس شروع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔ تعمیراتی کام سے مراد محض سڑکیں اور پل بنانا نہیں بلکہ تعلیم اور صحت کے شعبے بھی تعمیری ہوتے کیں جن سے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ اسکے علاوہ ملکی جیب میں پچھتر سال سے بڑے سے بڑے ہوتے سوراخ کو بند کرنا ہو گا۔ آبادی پر قابو اور وسائل کے استعمال کو بہتر بنانا ہو گا۔ اور ملک کے اندرونی قوانین اور بین الاقوامی معاشی معاہدوں میں سنجیدگی دکھانا ہو گی۔ ورنہ وطنِ عزیز کی معیاد ختم ہونے میں دیر نہیں لگنی۔

Shares: