پاکستان میں کرپشن کے متعدد کیسز سامنے آئے ہیں، مگر 190 ملین پاؤنڈ کا معاملہ واقعی ایک بڑا اور پیچیدہ کیس ہے۔ یہ وہ رقم ہے جو القادر ٹرسٹ کے کیس میں برطانوی اداروں سے ملنے والے لوٹ کے پیسے کے طور پر سامنے آئی ہے۔ اب ایک سادہ حساب کے ذریعے اس کرپشن کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سب سے پہلے، اگر ہم نواز شریف کے مے فئیر اپارٹمنٹس کے کیس کو دیکھیں تو یہ اپارٹمنٹس 1 ملین پاؤنڈ سے کم کی قیمت پر خریدے گئے تھے۔ اب اس قیمت کو 190 سے ضرب دیں، تو یہ ایک بہت بڑی رقم بنتی ہے، جو القادر ٹرسٹ کے کیس سے ملتی جلتی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔ اگر ہم اس کا موازنہ کریں تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ یہ کیس پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا کرپشن کیس بن چکا ہے۔عمران خان، جو کبھی یہ دعویٰ کرتے تھے کہ وہ لوٹے ہوئے مال کو واپس لائیں گے، جب انہیں برطانوی اداروں سے یہ لوٹا ہوا پیسہ مل گیا، تو انہوں نے اس کو قومی خزانے میں جمع کروانے کی بجائے، اسی مجرم کو بھی بخش دیا۔اور اس مجرم سے زمینیں اور قیمتی جواہرات حاصل کر کے اُسے ملک کا "ہیرو” بھی بنا دیا گیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ کرپشن کے اس بڑے کیس میں کس طرح سیاسی مفادات کا کھیل کھیلا گیا۔یہ صورتحال پاکستانی عوام کے لیے ایک سبق ہے کہ کس طرح حکومتیں اور سیاستدان اپنی ذاتی مفادات کے لیے قومی خزانے کا استحصال کرتی ہیں اور ایک بڑے کرپشن کیس کو چھپانے کے لیے دیگر ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں۔190 ملین پاؤنڈ کیس میں عمران خان اور بشری بی بی نے دیگر پی ٹی آئی رہنماون کے ساتھ ملکر قومی خزانے کے ساتھ کھلواڑ کیا ۔گزشتہ روز عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا جو 23 دسمبر کو سنایا جائے گا اس کیس میں عمران و بشریٰ کو سزا یقینی ہے۔
طالبان کے حمایتی عمران خان کے ساتھ امریکی ہمدردیاں کیوں؟
سلمان احمد کو بشری پر تنقید مہنگی پڑ گئی، پارٹی میں رہنے کیلیے بشری کی وفاداری ضروری
بھارتی اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی کے خلاف مقدمہ درج








