بارشوں کا ماسٹر پلان اور نااہل سرکاری ادارے
تحریر: ملک ظفر اقبال بھوہڑ
پاکستان اگر سونے کی چڑیا ہے تو وہ صرف سرکاری اشرافیہ کے لیے ہے۔ ایک ایسی ریاست جہاں بجلی، گیس اور پٹرول جیسی نعمتیں عوام کی پہنچ سے باہر ہیں، مگر سرکاری ادارے ان سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ فائدے ہم عوام کے حصے میں نہیں آتے، نہ ہی آپ کے لیے ہیں، نہ میرے لیے۔ اس ملک میں جو بھی سہولت ہے، وہ صرف ان سرکاری طبقوں کے لیے ہے جن کے بل بھی ہم ہی ادا کرتے ہیں۔ مگر سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان اداروں میں بھرتی کیے گئے نالائق، سیاسی بنیادوں پر لائے گئے افراد نے ملک کی ہر منصوبہ بندی کو ناکام کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بارش جیسا قدرتی، متوقع اور سادہ سا موسمی عمل بھی ہمارے لیے آفت بن کر آتا ہے۔

پاکستان میں ہر سال مون سون کا موسم ایک مقررہ وقت پر آتا ہے۔ محکمہ موسمیات کی جانب سے پیشگی وارننگز جاری ہوتی ہیں، اخبارات اور ٹی وی چینلز پر مسلسل الرٹس دیے جاتے ہیں، مگر جیسے ہی بارش کا آغاز ہوتا ہے، ہمارے شہر پانی میں ڈوبنے لگتے ہیں۔ لاہور، فیصل آباد، ملتان، اوکاڑہ سمیت تمام بڑے شہر ندی نالوں کا منظر پیش کرتے ہیں، گلیاں پانی سے لبریز ہو جاتی ہیں، گھروں کے اندر پانی داخل ہو جاتا ہے اور عوام کا جینا دوبھر ہو جاتا ہے۔ کیا یہ کوئی اچانک آفت ہے؟ ہرگز نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر بارش ہر سال ہوتی ہے، تو پھر ہم ہر سال تباہی سے دوچار کیوں ہوتے ہیں؟ کیا یہ حکومتوں کی ناکامی ہے یا صرف منصوبہ سازوں کی؟

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ادارے محض کاغذی منصوبہ بندی کے ماہر ہیں۔ لاہور جیسے شہر میں جہاں اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبے دکھائی دیتے ہیں، وہیں ایک گھنٹے کی بارش میں مین بلیوارڈ، جیل روڈ، گلبرگ اور شاہدرہ جیسے علاقے پانی میں ڈوب جاتے ہیں۔ اوکاڑہ میں نکاسی آب کی صورتحال تو اس سے بھی ابتر ہے۔ نالوں کی صفائی سالہا سال نہیں ہوتی، نکاسی آب کا کوئی جامع نظام موجود نہیں، اور شہر کی غیر منصوبہ بند توسیع نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اس ساری بدانتظامی کی سب سے بڑی وجہ سرکاری اداروں میں سیاسی بھرتیاں اور اقربا پروری ہے، جس نے ادارہ جاتی میرٹ اور استعداد کار کو دفن کر دیا ہے۔

پنجاب میں نکاسی آب کی ذمہ داری محکمہ بلدیات، واسا، محکمہ آبپاشی اور مقامی حکومتوں کے کندھوں پر ہے، مگر یہ ادارے اس وقت تک حرکت میں نہیں آتے جب تک کسی شہری کی ویڈیو وائرل نہ ہو جائے یا وزیر اعلیٰ بذات خود سڑکوں پر نہ نکل آئیں۔ فنڈز ہر سال جاری ہوتے ہیں مگر زیادہ تر کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں، یا کام ادھورا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اوکاڑہ شہر کے علاقے صمد پورہ، صدیق نگر، جنوبی اوکاڑہ، سٹی نالہ، غلہ منڈی اور گول چکر میں ہر سال بارش کے ساتھ نکاسی آب کا نظام مکمل طور پر فیل ہو جاتا ہے۔ شہری مجبوراً خود موٹریں لگا کر پانی نکالتے ہیں جبکہ سرکاری ادارے صرف تصاویر بنوا کر سوشل میڈیا پر رپورٹ مکمل کر لیتے ہیں۔ اس سے بڑی ادارہ جاتی بے حسی اور کیا ہو سکتی ہے؟

ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں اربن فلڈنگ کی اصل وجوہات ناقص انفراسٹرکچر، نالوں پر تجاوزات، غیر قانونی تعمیرات، اور قبل از وقت صفائی کے انتظامات کی کمی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں بارش سے پہلے صفائی، ڈرینج اور پانی کے ذخیرے کے سسٹمز پر کام کیا جاتا ہے، جبکہ ہمارے ہاں صرف دعوے اور بیانات دیے جاتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہم نے آج تک بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے، اسے کاشتکاری یا شہری استعمال کے لیے محفوظ بنانے کے کسی بھی منصوبے پر عملدرآمد نہیں کیا۔ اگر ہم منصوبہ بندی سے کام لیں تو یہی پانی، جو آج زحمت ہے، کل رحمت بن سکتا ہے۔ اس پانی کو اسٹور کر کے ہم نہ صرف پانی کی قلت پر قابو پا سکتے ہیں بلکہ بجلی پیدا کرنے اور زرعی مقاصد کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔

یہ امر بھی نہایت اہم ہے کہ کرپشن کی جڑیں صرف نچلی سطح تک محدود نہیں بلکہ آڈٹ کے وہ ادارے بھی اس میں ملوث ہیں جو احتساب کے نگہبان ہونے چاہیے تھے۔ اگر یہی ادارے خود کرپٹ ہو جائیں تو پھر کسی ماسٹر پلان، کسی فنڈ، کسی منصوبے کی کوئی ضمانت باقی نہیں رہتی۔ حکومت اگر واقعی سنجیدہ ہے تو سب سے پہلے انہیں اداروں کا قبلہ درست کرنا ہوگا، ورنہ سال بہ سال بارشیں آتی رہیں گی، شہر ڈوبتے رہیں گے، عوام روتے رہیں گے، اور ماسٹر پلان صرف فائلوں کی زینت بنے رہیں گے۔

Shares: