برطانوی حکومت نے اسرائیل کو اسلحہ کی سپلائی عارضی طور پر روک دی

0
56

لندن: برطانوی حکومت نے پیر کو ایک اہم فیصلہ کرتے ہوئے اسرائیل کو اسلحہ کی کچھ اقسام کی برآمدات عارضی طور پر روک دی ہیں۔ یہ اقدام بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے امکان کے پیش نظر اٹھایا گیا ہے۔برطانوی سیکریٹری خارجہ ڈیوڈ لیمی نے اس فیصلے کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ کچھ ہتھیاروں کے استعمال سے "واضح خطرہ” ہے کہ بین الاقوامی انسانی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے قانون سازوں کو آگاہ کیا کہ یہ فیصلہ 350 برآمدی لائسنسوں میں سے 30 لائسنسوں پر مبنی ہے، جن میں فوجی طیاروں اور ڈرونز کے پرزے اور زمینی ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال ہونے والی اشیاء شامل ہیں۔اس اقدام کا مقصد غزہ میں جاری تنازعے کے دوران استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی روک تھام ہے۔ برطانیہ، جو اسرائیل کے دیرینہ اتحادیوں میں شامل ہے، پر غزہ میں جاری جنگ کی وجہ سے ہتھیاروں کی برآمدات روکنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اسرائیل نے حماس کے زیر انتظام علاقے میں فلسطینی وزارت صحت کے مطابق 40,000 سے زیادہ فلسطینیوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔

برطانوی حکومت کے مطابق، اسرائیل کو ہتھیاروں اور پرزوں کی فروخت کی مقدار نسبتاً کم ہے، اور اس سال کے شروع میں 2022 میں یہ برآمدات 42 ملین پاؤنڈ (53 ملین ڈالرز) تک پہنچ گئی تھیں۔جولائی میں منتخب ہونے والی برطانوی سنٹر لیفٹ لیبر حکومت کو اسرائیل پر تشدد روکنے کے لیے مزید دباؤ کا سامنا ہے۔ پارٹی کے اراکین اور قانون سازوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ حکومت اسرائیل پر اضافی دباؤ ڈالے۔ کیئر اسٹارمر کی قیادت میں لیبر پارٹی نے انتخابات میں کئی نشستیں کھو دیں، اور اسٹارمر نے ابتدائی طور پر اسرائیل کی طرف سے 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کا بدلہ لینے کے بعد جنگ بندی کا مطالبہ کرنے سے انکار کر دیا تھا، جس کی وجہ سے پارٹی کو نقصان اٹھانا پڑا۔لیبر حکومت نے اپنے قدامت پسند پیشرو رشی سنک کی حکومت کے فیصلوں سے اختلاف کرتے ہوئے اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت کی درخواست میں مداخلت نہ کرنے کا اعلان کیا۔ مزید برآں، اسٹارمر نے اقوام متحدہ کی فلسطین ریلیف ایجنسی UNRWA کے لیے فنڈنگ بحال کی، جسے سنک کی حکومت نے جنوری میں معطل کر دیا تھا۔ڈیوڈ لیمی نے غزہ میں تشدد کی صورتحال کو "خوفناک” قرار دیتے ہوئے کہا کہ شہریوں کی جانوں کا بے پناہ نقصان ہوا ہے، بنیادی ڈھانچے کو بڑے پیمانے پر تباہی کا سامنا ہے، اور لوگوں کو بے پناہ مصائب کا سامنا ہے۔ لیمی نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ وہ اسرائیل کے دوست ہیں، لیکن انسانی حقوق کے تحفظ کی خاطر اس اقدام کا حصہ ہیں۔

Leave a reply