برطانوی وزیراعظم بورس جانسن مستعفی ہوگئے ،

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے وزارت عظمیٰ سے استعفی دے دیا اور کہا کہ پارٹی کے نئے لیڈر کے انتخاب تک کام کرتارہوں گا،

بورس جانسن کا کہنا تھا کہ کابینہ اراکین کو مطمئن کرنے میں ناکام رہا کہ وزیراعظم کی تبدیلی درست فیصلہ نہیں ہوگا اپنی حکومت کے دوران حاصل کامیابیوں پر بہت فخر ہے، بریگزٹ کی تکمیل، کورونا وبا سے ملک کا نکالنا اور مغربی ممالک کو یوکرین میں روسی جارحیت کے خلاف اکٹھا کرنا بڑی کامیابیاں ہیں اعتراف کرتا ہوں کہ سیاست میں کوئی بھی شخص ناگزیر نہیں ہوتا، برطانوی عوام کو کہنا چاہتا ہوں کہ دنیا کی بہترین جاب چھوڑنے پر انتہائی افسوس ہے پارٹی جو بھی نیا لیڈر منتخب کرے گی اس کی مکمل سپورٹ کروں گا

بورس جانسن پارٹی کے نئے لیڈر کا انتخاب ہونے تک قائد رہیں گے، جانسن نے ابتدائی طور پر کنزرویٹو بیک بینچرز اور کابینہ کے وزراء کی جانب سے استعفے دینے کے باوجود ڈٹے رہنے کا اعلان کیا تھا تا ہم اب انہوں نے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا ہے،بورس جانسن کنزرویٹو پارٹی کے سربراہ کے عہدے سے مستعفی ہو گئے

برطانوی میڈیا کے مطابق بورس جانسن کی مشکلات میں بے حد اضافہ ہو گیا ہے، دو دنوں کے اندر کابینہ ارکان، وزرا، پارلیمنٹری پرائیویٹ سیکریٹریز کے استعفوں کی تعداد پینتالیس ہو گئی ہے، کابینہ میں استعفوں کا یہ سلسلہ منگل کو شروع ہوا تھا

برطانوی میڈیا کے مطابق نوے سالوں میں پہلی بار ایسا ہوا کہ برطانوی اراکین پارلیمنٹ اور کابینہ میں شامل وزرا نے اتنی بڑی تعداد میں اپنے ہی وزیراعظم پر عدم اعتماد کا اظہار کیا، جس کے بعد برطانوی وزیراعظم کو استعفیٰ دینا پڑا،

بورس جانسن کے خلاف تحریک عدم اعتماد اگلے برس تک جمع نہیں کروائی جا سکتی تھی کیونکہ ایک عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہو چکی ہے

برطانیہ کے اپوزیشن لیڈر سرکیئر اسٹارمر کا کہنا ہے کہ بورس جانسن کا استعفیٰ قوم کے لیے خوشخبری ہے اس منصب کے لیے وہ کبھی بھی موزوں نہیں تھے بورس جانسن جھوٹ، فریب اور اسکینڈلز کے ذمہ دار ہیں، وہ تمام افراد جنہوں نے بورس جانسن کا ساتھ دیا ان کے لیے شرمندگی کا مقام ہے

Shares: