انسان کے جنم کے ساتھ ہی داستان نے بھی جنم لیا ہے۔ہر گزرتا لمحہ یادوں میں منتقل ہو جاتا ہے۔یہ یادیں تلخ بھی ہو سکتی ہیں اور حسین بھی۔زندگی کے سفر میں حسین یادیں جینے کا مزہ دوبالا کر دیتی ہیں لیکن تلخ یادیں کُند تلوار کی طرح ضربیں لگاتی رہتی ہیں۔گزرتی عمر کے ساتھ یادوں کے حوالے سے پروفیسر عظمیٰ مسعود لکھتی ہیں:”یادیں ہمیشہ یادوں کی ایک بارات سی لے کر چلتی ہیں۔ایک یاد،پھر دوسری اور تیسری یاد۔کڑی سے کڑی ملتی جاتی ہے اور یادوں کی لمبی زنجیر سی بن جاتی ہے اور اگر تھوڑی سی لمبی عمر کی اجازت مل جائے اور انسان خود بھی ذہنی طور پر بڑا ہو جائے تو یہ یادیں اُس کی زندگی کا بڑا قیمتی سرمایہ بن کر کبھی تو اسے نہال کر دیتی ہیں کبھی نڈھال۔اس پر طاقت ور فرعون کا،نمرود کا،حسین سے حسین تر قلوپطرہ کا اور تنومند سے تنومند مرد کا بھی کوئی زور نہیں چلتا۔یہ کہیں تو تلوارکی دھار کی کاٹ رکھتی ہیں کہ جگر چیر کر رکھ دیتی ہیں تو کہیں پھول کی پتیوں جیسی نرم اور گدازہوتی ہیں کہ اندر تک مہکا دیتی ہیں۔یہ روح پر اپنا اثر چھوڑے بغیر جاتی ہی نہیں۔
کتب کے مطالعے میں خود نوشت پڑھنے کا ہمیشہ سے دیوانہ رہا ہوں۔آپ بیتیوں میں بزرگوں کے ساتھ گزرے حالات و واقعات سے سبق لے کر ہم اپنی زندگی سنوار سکتے ہیں۔مشکل سے مشکل حالات میں اچھے فیصلے کرنے کی صلاحیت پیدا کر لیتے ہیں۔سیکھنے کا عمل جاری رہے تو انسان مات نہیں کھاتا۔چاہے وہ خانگی زندگی ہو معاشرتی مسائل۔
"بس یہی داستاں ہماری ہے”پچھلے کئی دِنوں سے زیرِ مطالعہ رہی ہے۔پروفیسر عظمیٰ مسعودخراج تحسین کی مستحق ہیں جس طرح انھوں نے زندگی کے نشیب و فراز کو قلم بند کیا ہے دوسروں کے لیے مشعل راہ ہے۔میں نے یہ خودنوشت راتوں کو بیٹھ کر پڑھی ہے۔صبح نماز کے بعد فصلوں کی سیر کے دوران پڑھی ہے۔تازہ ہوا کے جھونکوں میں اوراق کی مہک نتھوں کے ذریعے روح ودل کو راحت بخشتی ہے۔ڈاکٹر اشفاق احمد وِرک نے خوب کہا ہے:
یہ جو یادوں کی لائبریری ہے
اس کی چھایا بہت گھنیری ہے
"بس یہی داستاں ہماری ہے”میں جو پڑھتا ہوں تو کتاب رکھنے کو دل نہیں کرتا۔لیکن میں نے یہ کتاب اپنے اوپر مسلط کرکے پڑھی ہے۔مصنفہ کے ساتھ میں نے بھی ماضی و حال کا سفر کیا ہے۔کہیں آنسوؤں کی کشتی میں سوار ہوا تو کہیں سسکیوں کی نگری آباد کی۔کہیں شرارتیں سوجھی تو کہیں آہیں بھر نے لگا۔پروفیسرعظمیٰ مسعودکا قلم بے باک ہے۔بڑی جان فشانی سے زیست کے اوراق کو پلٹا ہے۔کہیں ہجرت کے دُکھ ہیں تو کہیں آزادوطن کے حکمرانوں کی کارستانیاں۔کہیں اپنوں کے بچھڑنے کادُکھ ہے تو کہیں عشق کی باتیں۔کہیں دوست دشمن بنتے ہیں تو کہیں دُشمن دوست۔کہیں بُرے وقت میں "نند”جیسا کردار ہمدردی اور اپنائیت کا استعارہ بن جاتا ہے تو کہیں حسد کرنے والے اپناوار کرتے ہیں۔کہیں ایک تھالی میں کھانے والے گہری ضرب لگاتے نظر آتے ہیں تو کہیں دلاسہ بڑھانے والے موجود ہیں۔
"بس یہی داستاں ہماری ہے”کہنے کو تو پروفیسر عظمٰی مسعود کی خودنوشت ہے لیکن میں سمجھتا ہوں وطن ِعزیز کے ادیبوں کی داستاں ہے۔یہ سیاست دانوں کی کارستانیوں کا اعلان ہے۔اس کتاب میں ایک زندگی نہیں ہزاروں زندگیاں ہیں۔کہیں مصنفہ مطالعہ کی شوقین نظر آتی ہے اور ہمیں بہترین کتب سے ملواتی ہیں۔کہیں سیاست دان بن کر اصطلاحات نافذ کراتی ہیں تو کہیں پروفیسر بن کر بتاتی ہے کہ حالات جیسے بھی رہے ہوں پروفیسر ایسا ہوتا ہے۔یہ اقتباس پڑھیے:
"اب میں "ادب”کی کچھ کچھ باتیں بھی سمجھنے لگی تھی۔یہاں سے میں نے پہلی بار عصمت چغتائی کا نام سُنااور ریڈیو کی لائبریری سے اُن کے افسانوں کی کتاب لی۔”لحاف”کا ذکر بار بار ذکر سنا تھا۔پڑھا خاک سمجھ نہ آیا۔پھر کشورناہید کے سمجھانے پر بھی سمجھ نہ آیا۔اس نے گالیاں دے کر سمجھایا۔دل پھر بھی نہ مانا۔اسے سمجھنے کے لیے دماغ کو تیز دھار چھری کی طرح کا ہونا ضروری تھا اور میرے ہاں تو صرف گودا بھرا تھا۔خداگواہ ہے کہ وہ افسانہ عرصہ دراز تک ایک راز ہی رہا۔جو کشور نے سمجھایا میں نے اکثرسوچا”یہ کیسے ہوسکتا ہے۔”میں نے سوچنا ہی چھوڑ دیا۔اُسی زمانے میں منٹو کے "ٹھنڈے گوشت”کا تذکرہ شروع ہوا۔کتاب خریدی،کہانی پڑھی،خاص طور پر پڑھی،البتہ یہ کچھ کچھ پلے پڑی۔باقی تفصیل میں نے کشور سے پوچھ لی۔”
زندگی کے بارے لکھتی ہیں:”زندگی مشکل تھی اور اتنی مشکل زندگی کو جینا کانچ پر ننگے پاؤں چلنے جیسا تھا۔میں اکثر سوچتی ہوں زندگی ہے کیا چیز؟اور یہ اتنی تکلیف دہ کیوں ہو جاتی ہے۔پھر یہی زندگی کسی قدر دل نواز،حسین اور دلبرانہ بھی ہے کہ اسے جینے کے لیے انسان کیسی کیسی محنت کرتا ہے،فریب کرتا ہے،ریاکاری کرتا ہے،جھوٹ بولتا ہے۔۔۔اُف خدایا انسان کیا کچھ نہیں کرتا کہ وہ یہ زندگی جی لے اور خوب جی لے۔زندگی کو جینے کا اتنا لالچ؟ہے تو پھر بھی دو ہی دن کی۔۔اس زندگی کے لیے اتنی تگ ودو سب ہی کرتے ہیں لیکن میرا خیال ہے ہمارے ملک کے سیاستدان کچھ زیادہ ہی آگے بڑھ جاتے ہیں۔وہ آگے بڑھتے جاتے ہیں،زندگی اُن کے گرد گھیرا تنگ کرتی جاتی ہے۔۔”
نہ خدا ہی ملا نہ وصال ِصنم
نہ ادھر کے ہوئے نہ اُدھر کے ہوئے
"بس یہی داستاں ہماری ہے”میں پروفیسر عظمیٰ مسعود،اپنے سکول،کالج کے زمانے کی دوستوں کو یاد رکھتی ہیں۔سروس کے دوران تسلی اور دلاسہ دینے والوں کو نہیں بھولتیں۔دوسروں پر قدغن نہیں کرتیں،البتہ اپنے آپ کو کڑوی کسیلی سناتی ہیں۔جب بھی زندگی سے تھکنے لگتی ہیں تو رب کو یاد کرلیتی ہیں اور یوں ایک اُمید کا دیا روشن کر لیتی ہیں۔
وقت اچھا بھی آئے گا ناصرؔ
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
"بس یہی داستاں ہماری ہے”پروفیسر عظمیٰ مسعود کی شان دار کتاب 332صفحات پر مشتمل ہے۔قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل سے شایع ہوئی ہے جس کے روح رواں علامہ عبدالستار عاصم ہیں۔کتاب دوست،صاحب کتاب اور کتاب سے محبت رکھنے والوں کے خیرخواہ ہر دل عزیز شخصیت،کتاب بینی کے فروغ میں ہمہ تن سرگرداں۔ان کا احسان ِعظیم ہے کہ نامور شخصیات سے متعارف کرواتے ہیں ان کا لکھا قاری تک پہنچاتے ہیں۔
"بس یہی داستاں ہماری ہے”کا اسلوب سادہ اور عام فہم ہے۔پروفیسر عظمیٰ مسعود اشعار کا تڑکا خوب لگاتی ہیں یہاں سے ان کے ذوق کی خبر ہوتی ہے۔اس کتاب کی بہت سی خوبیاں ہیں۔یوں کہیے جو آپ چاہتے ہیں آپ کے ذوق کے مطابق اس میں ملتا ہے۔آپ زندگی کے کسی بھی شعبے سے وابستہ ہیں اور آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو یہ کتاب آپ کو ضرور پڑھنی چاہیے۔یہ حالات کی گردش میں گرے لوگوں کا ہاتھ پکڑ کر راحت کے نگر میں بسیرا کراتی ہے۔دُنیامیں بسنے والے ہر شخص کی داستاں "بس یہی داستاں ہماری ہے”میں ملتی ہے۔
کوئی تدبیر کرو،وقت کو روکو یارو
صبح دیکھی ہی نہیں،شام ہوئی جاتی ہے
"بس یہی داستاں ہماری ہے”کے پیغام کے ساتھ اجازت چاہوں گا:”رب ِ ذوالجلال نے دُنیا بنائی ہے تو اِس کو چلانے کے کچھ اصول بھی بنائے ہیں۔یہ دُنیا اسی طرح چلی ہے،اسی طرح اب تک چلتی رہی ہے اور اسی طرح چلتی رہے گی۔البتہ "ہم نہ ہوں گے کوئی ہم ساضرورہو گا”۔زندگی کو صرف بسر ہی نہیں کرنا اسے جینا بھی ہے اور اسے جینا چاہیے۔”
اگر آپ چاہتے ہیں کہ ایسی کتاب پڑھیں جو زندگی بدل دے تو میرا مشورہ یہی ہے کہ "بس یہی داستاں ہماری ہے”ضرور پڑھیں۔اگر آپ کو کتاب متاثر نہ کرسکی تو جو چاہے سزا دیں۔اللہ تعالیٰ، پروفیسر عظمیٰ مسعودکو جزائے خیر دے آمین۔








