بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد دمشق میں جشن
اتوار کو شام کے دارالحکومت دمشق میں ہزاروں افراد نے بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کی خوشی میں سڑکوں پر جمع ہو کر جشن منایا۔ اس دوران شہر میں مختلف مقامات پر نعرے بازی، دعائیں اور کبھی کبھار فائرنگ کی آوازیں سنائی دیں۔ اپوزیشن فورسز نے دارالحکومت دمشق میں داخل ہو کر حکومت کے خلاف ایک بڑی کامیابی حاصل کی تھی، جس کے بعد عوامی جوش و جذبے میں اضافہ ہو گیا۔
شامی اپوزیشن کے جنگی مبصر رامی عبدالرحمن نے اطلاع دی کہ بشار الاسد نے اتوار کی صبح دمشق سے پرواز کر کے دارالحکومت چھوڑ دیا تھا۔ اس سے قبل، شام کی اپوزیشن فورسز نے اتوار کے دن تک شام کے تیسرے بڑے شہر حمص پر مکمل قبضہ کر لیا تھا۔ حکومت نے اس شہر کو چھوڑ دیا تھا، اور اپوزیشن نے شہر کی مرکزی عمارتوں اور علاقے کو کنٹرول کر لیا۔شام کے عوام اس صورتحال میں ایک نئی امید محسوس کر رہے ہیں، کیونکہ وہ کئی سالوں سے بشار الاسد کے جابرانہ نظام کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔
ایران، جو بشار الاسد کی حکومت کا ایک قریبی اتحادی رہا ہے، نے اس تبدیلی پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ شام کے مستقبل کا فیصلہ صرف شامی عوام کو کرنا چاہیے، اور اس میں کسی بیرونی طاقت کی مداخلت کو مسترد کیا گیا۔ ایران نے اسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد شامی عوام کی خودمختاری کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا۔
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل نے گولان ہائٹس کے علاقے میں ایک بفر زون پر قبضہ کر لیا ہے، جو 1974 میں شام کے ساتھ طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کے تحت قائم کیا گیا تھا۔ نیتن یاہو کے مطابق، جب شام کے فوجیوں نے اپنی پوزیشنیں چھوڑ دیں، تو اسرائیل نے گولان ہائٹس میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسرائیل نے گولان ہائٹس پر 1967 کی جنگ میں قبضہ کیا تھا اور اسے اپنے علاقے کے طور پر تسلیم کر لیا تھا، تاہم عالمی برادری کے بیشتر ممالک اسے ابھی بھی شام کا مقبوضہ علاقہ سمجھتے ہیں۔
لبنان نے شام کے ساتھ تمام زمینی سرحدوں کو بند کرنے کا اعلان کیا، سوائے ایک گذرگاہ کے جو بیروت کو دمشق سے جوڑتی ہے۔ اسی طرح اردن نے بھی شام کے ساتھ اپنی ایک سرحدی گذرگاہ کو بند کر دیا ہے۔ یہ اقدامات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ خطے کے ممالک شام میں آنے والی سیاسی تبدیلیوں سے محتاط ہیں اور وہ ان کی ممکنہ نتائج سے بچنے کے لیے حفاظتی تدابیر اختیار کر رہے ہیں۔
لبنان کے مسناء سرحدی علاقے میں بھی شام جانے والے پناہ گزینوں میں جشن کا ماحول تھا۔ وہاں موجود کچھ لبنانی شہری شامیوں کو مبارکباد دینے کے لیے مٹھائیاں تقسیم کر رہے تھے۔ سامی عبداللطیف، جو حما سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنے خاندان کے ساتھ شام واپس جا رہے تھے، نے کہا کہ اگرچہ شام کا مستقبل ابھی بھی غیر یقینی ہے، لیکن ان کے لیے بشار الاسد کے تحت زندگی گزارنا ناممکن ہو چکا تھا۔ انہوں نے کہا کہ "کچھ بھی ہو، بشار سے بہتر ہوگا۔” انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ ابتدائی طور پر حالات میں کچھ انتشار ہو سکتا ہے، لیکن آخرکار سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔مالک مطر، جو دمشق واپس جانے والے ایک شہری ہیں، نے کہا: "ہم نے 14 سال تک آزادی کا انتظار کیا۔ اب جب حکومت ختم ہو چکی ہے، ہم نے آزادی محسوس کی ہے۔ ہم آزاد ہیں اور اپنے ملک کے لیے نیا آغاز کر سکتے ہیں۔”
مصر میں بھی بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے پر مختلف جذبات سامنے آ رہے ہیں۔ بہت سے مصری شہریوں نے اس تبدیلی کا خیرمقدم کیا ہے کیونکہ بشار الاسد کی حکومت نے طویل عرصے تک ظلم اور جبر کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ تاہم، کچھ افراد نے شام کے مستقبل کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔ ان کا خیال تھا کہ اپوزیشن گروہ آپس میں لڑ پڑیں گے اور ملک میں ایک اور خانہ جنگی شروع ہو جائے گی، جیسا کہ لیبیا، یمن اور سوڈان میں ہو چکا ہے۔
یورپی یونین کے اعلیٰ ترین سفارتکار کاجا کالاس نے بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کا خیرمقدم کیا اور اسے ایک "مثبت اور طویل عرصے سے منتظر پیش رفت” قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس تبدیلی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شام میں اسد کے حمایتی قوتوں کی طاقت کم ہو چکی ہے، خاص طور پر روس اور ایران کے ساتھ تعلقات میں کمزوری آئی ہے۔
جرمنی کے چانسلر اولاف شولز نے بھی اس پیشرفت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اب ضروری ہے کہ شام میں امن و امان قائم کیا جائے اور تمام فرقوں اور اقلیتی گروپوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ "ہم شام کے نئے حکام کا جائزہ لیں گے کہ وہ کیا اقدامات کرتے ہیں تاکہ تمام شامیوں کو وقار اور خودمختاری کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع ملے۔”
چین نے شام کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ امید کرتا ہے کہ شام میں جلد استحکام واپس آئے گا۔ چین نے یہ بھی بتایا کہ وہ اپنے شہریوں کو شام سے نکالنے کے لیے مدد فراہم کر رہا ہے اور ان کے لیے محفوظ راستے فراہم کر رہا ہے۔
شام میں اس وقت سیاسی تبدیلی کی لہریں چل رہی ہیں، جس کا اثر نہ صرف ملک بلکہ پورے خطے پر پڑ رہا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد کی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، اور ہر ایک کی طرف سے شام کے مستقبل کے بارے میں مختلف آراء سامنے آ رہی ہیں۔ لیکن ایک بات واضح ہے، شامی عوام کے لیے یہ ایک نیا آغاز ہو سکتا ہے، اور ان کا مستقبل اب ان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔