باطل آوازیں یا The call of the void ہماری نفسیات کا ایک حصہ ہیں. کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے آپ کسی پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے ہیں نیچے اتھاہ گہرائی ہے. ایک قدم اور آپ نیچے گر سکتے ہیں. آپ کے دل میں خیال آتا ہے یہ ایک قدم اٹھا کر دیکھ نہ لوں.؟
سڑک کنارے تیز رفتار آتی گاڑی کے سامنے خواہش ہوئی سامنے نہ چلا جاوں. ہجوم میں اچانک ایک تیز چیخ مارنے کی خواہش کبھی ہوئی ہے؟ . بہت سے لوگ اس کیفیت سے روشناس نہ ہوں گے. بہت سے یاد کریں گے تو ان کو یہ اندر کی آواز یاد آجاتی ہے.
ہم سب کے پاس فیصلے کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے. ہمارا دماغ نہ صرف ایک ہی وقت بہت سے فیصلے کر سکتا ہے بلکہ اسے اپنی اس صلاحیت کا بخوبی پتہ بھی ہوتا ہے. ہم اچھے فیصلے بھی کر سکتے ہیں اور برے فیصلے بھی. ایک پہاڑ کی چوٹی پر دماغ جب نیچے کا منظر دیکھتا ہے تو یہ نہیں کہتا کہ چھلانگ لگا لو بلکہ گھبرا کر کہتا ہے ” کہیں چھلانگ ہی نہ لگا لو”
ہر ایک کا اپنا اینزائٹی لیول ہوتا ہے. کچھ لوگ فیصلوں میں کلئیر ہوتے ہیں کچھ نہیں. کچھ کا دماغ فوری تجزیہ کرتا ہے کچھ گومگو رہتے ہیں. جو جتنا کنفیوز ہوتا ہے اتنا ہی وہ ادھوری بات لیتا ہے. اسے لگتا ہے جیسے دماغ نے خواہش کی ہو چھلانگ لگا دو. اچھے برے اعمال میں بھی یہی باطل آوازیں دماغ اٹھاتا ہے. جس کا ایمان اور یقین جتنا مضبوط ہوتا ہے اتنا ہی کم وہ یہ باطل آوازیں سنتا ہے اور جس کا جتنا کمزور ہوگا اتنی ہی زیادہ اس کی باطل خواہشات پیدا ہوں گی.