حکومتی پالیسیاں، تاجروں کی ہڑتال اور بے حس جوتے کھاتی عوام
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفےٰ بڈانی
پاکستان اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ ایک طرف بے رحم حکومتی پالیسیاں ہیں جو سرمایہ کاروں، صنعتکاروں اور تاجروں پر ٹیکسوں کا ایسا بوجھ ڈال رہی ہیں جو عملاً کاروبار کو دفن کرنے کے مترادف ہے تو دوسری جانب ایک تھکی ہاری، بے حال اور دبے ہوئی عوام ہے جو روز مہنگائی، بیروزگاری اور بڑھتے ہوئے بلوں کے طوفان میں اپنی سانسیں گن رہی ہے۔ مگر اس دو انتہاؤں کے درمیان جو سب سے حیران کن فرق ہے وہ ردعمل کا ہے،جیساکہ تاجر متحد ہو کر سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور عوام چپ چاپ "جوتے” کھاتی رہتی ہے۔
حالیہ بجٹ 2025-26 کے خلاف بزنس کمیونٹی کے واضح اور بھرپور ردعمل نے اس تاثر کو مزید مستحکم کیا ہے کہ یہ طبقہ جانتا ہے کہ اپنی آواز کیسے منوانی ہے۔ سیالکوٹ چیمبر آف کامرس کے صدر اکرام الحق، پاکستان سپورٹس گڈز مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین خواجہ مسعود اختر اور دیگر تمام کاروباری نمائندوں نے متفقہ طور پر نہ صرف بجٹ کو مسترد کیا بلکہ 19 جولائی کو ملک گیر شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان بھی کیا۔ ان کا مؤقف ہے کہ 37A اور 37B جیسے "کالے قوانین” بزنس کو تباہ کرنے کی سازش ہیں اور آئی ایم ایف کی خوشنودی کے لیے مقامی صنعتوں کی گردن مروڑی جا رہی ہے۔
یہ تمام بیانات اور فیصلے بتاتے ہیں کہ تاجر طبقہ نہ صرف حالات کی نزاکت کو سمجھتا ہے بلکہ منظم، متحد اور باہمی اتفاق سے ان کا مقابلہ بھی کرتا ہے۔ اُن کے پاس ادارے ہیں، پلیٹ فارم ہیں، قیادت ہے اور سب سے بڑھ کر شعور ہے کہ کب، کہاں اور کیسے اپنی طاقت کو استعمال کرنا ہے۔
اب آئیے دوسری طرف دیکھیں تو وہ عوام جس پر ہر مہینہ بجلی کے بلوں کی صورت میں قہر نازل ہوتا ہے، جس کے باورچی خانے میں آٹا، چینی، گوشت اور سبزیاں خواب بن چکے ہیں جو روز کسی نہ کسی خاندان کی خودکشی کی خبر سن کر بھی چپ رہتی ہے۔ واپڈا کی "سلیب گردی” ہو یا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ، ہر مسئلہ براہ راست عوام کو متاثر کرتا ہے۔ پھر بھی کوئی اجتماعی احتجاج، کوئی ملک گیر تحریک، کوئی شٹر بند ہڑتال نظر نہیں آتی۔
اس عوامی خاموشی کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ سب سے بڑی وجہ ایک مؤثر قیادت اور تنظیم کی عدم موجودگی ہے۔ عوام کے پاس نہ کوئی چیمبر آف کامرس ہے، نہ کوئی نمائندہ آواز، نہ ہی وہ متحد ہونے کے کسی پلیٹ فارم پر متفق ہیں۔ دوسرا، خوف اور مایوسی نے دلوں کو مردہ کر دیا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ "کچھ نہیں بدلے گا”، اور اس سوچ نے انہیں بے عملی کی قبر میں دفن کر دیا ہے۔ حزب اختلاف کی غیر موجودگی اور میڈیا کی مصلحت پسندی نے اس بے حسی کو اور بھی مضبوط کر دیا ہے۔
تاجروں کی ہڑتال ہمیں بتاتی ہے کہ اتحاد میں طاقت ہے، تنظیم میں اثر ہے اور قیادت میں سمت ہے۔ اگر عوام ان اصولوں کو اپنائیں تو وہ بھی اپنی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ لیکن کیا وہ ایسا کریں گے؟ کیا وہ اپنی بے بسی کو طاقت میں بدلنے کے لیے تیار ہیں؟ یا پھر وہی "جوتے کھاتی عوام” بن کر تماشائی بنی رہے گی؟
اس موقع پر ایک پرانی کہاوت یاد آتی ہے کہ”سو پیاز اور سو جوتے۔” جب بادشاہ نے مجرم کو اختیار دیا کہ وہ یا تو سو پیاز کھائے یا سو جوتے سہے، تو اس مجرم نے پہلے پیاز کھانے شروع کیے۔ مگر جب برداشت نہ رہی تو جوتوں کی سزا قبول کی اور آخر کار دونوں پورے کیے،سو پیاز بھی کھائے اور سو جوتے بھی سہے۔
آج پاکستانی عوام بھی اسی دو راہے پر کھڑی ہے۔ وہ ہر روز "پیاز” کی صورت میں مہنگائی، بیروزگاری، لوڈشیڈنگ اور ٹیکسوں کا بوجھ اٹھا رہی ہے اور "جوتوں” کی صورت میں ذلت، بے بسی، استحصال اور خاموشی برداشت کر رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ عوام کب تک سو پیاز اور سو جوتے دونوں سہتی رہے گی؟ کیا وہ تاجروں کی طرح اپنے حق کے لیے اٹھ کھڑی ہو گی؟ کیا اب وقت نہیں آیا کہ "تماشائی” کی حیثیت سے نکل کر "تحریک” کا حصہ بن جایا جائے اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی جائے؟ یہ فیصلہ اب صرف عوام نے ہی کرنا ہے کہ وہ کون سا راستہ اختیار کرتی ہے۔