بہنوں بیٹیوں کا کھانے والے کبھی فلاح نا پائینگے !!! ازقلم غنی محمود قصوری

0
28

زمانہ جہالت میں لوگ اپنی بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی قتل کر دیتے تھے کیونکہ عورتوں کے بھی حقوق ہیں سو ان کے حقوق کو کھانے کی خاطر ان کو قتل کرنا معمول تھا پھر میرے اور آپ کے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور اس فعل بد سے لوگوں کو روکا اور حقوق خواتین وضع کئے
اسلام میں جہاں مردوں کے حقوق ہیں وہیں عورتوں کے بھی حقوق ہیں اور قرآن و حدیث نے ان حقوق کو کھول کھول کر بیان کیا ہے تاکہ ہر حقدار کو اس کا حق ملے مگر افسوس کہ آج ہمارے معاشرے میں زیادہ تر بہنوں ،بیٹیوں کا وراثتی شرعی حق کھانا ایک فیشن بن چکا ہے اور اس حق ماری کو بلکل بھی حرام نہیں سمجھا جاتا
اگر کوئی عورت اپنا حق مانگے تو اسے سو طرح کے بہانے سنا کر طعنہ زنی کی جاتی ہے کبھی اس کی پرورش کی تو کبھی اسے تعلیم دلوانے کی کبھی اس کو اچھا کھلانے کی تو کبھی اس کی شادی پر آنے والے اخراجات کی غرض زیادہ تر عورتوں کو انکے اس جائز شرعی وراثتی حق سے محروم ہی رکھا جاتا ہے اگر کوئی بیچاری اپنا حق بھائی،باپ سے مانگ بیٹھے تو بمشکل ہی ادا کیا جاتا ہے بعض تو ایسے واقعات بھی رونما ہو چکے کہ بہنوں بیٹیوں کو جائیداد میں ان کا حق نا دینے کی خاطر پوری جائیداد بیٹوں کے نام کر دی جاتی ہے اور یوں چاہتے ہوئے بھی وہ بیچاری اپنا حق نہیں لے سکتیں
واضع رہے جس طرح ایک لڑکے کی پرورش،تعلیم اور شادی والدین پر فرض ہے بلکل اسی طرح ایک لڑکی کی پرورش،تعلیم اور شادی بھی والدین پر بحیثیت واجب ہے اور یہ ان کا حق ہے
کسی کا حق مارنا چوروں ڈاکوؤں کا کام ہے اور اس حق مارنے کے متعلق اللہ رب العزت فرماتے ہیں
اے ایمان والوں تم ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق طریقے سے نا کھاؤ ،سوائے اس کے کہ تمہاری باہمی رضا مندی سے کوئی تجارت ہو، اور تم اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو ،بیشک اللہ تم پر مہربان ہے ۔۔ النساء 29
اس سورہ میں اللہ تعالی نے کسی کا بھی حق مارنے سے منع فرمایا اور کہا کہ ایسا کرنے والے اپنی جانوں پر ظلم کرینگے اور ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہوگا
ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
اے داؤد ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے لہذہ لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کرو اور نفس کی خواہش کی پیروی نا کرو وہ تجھے اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی ،جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹک گئے ان کے لئے سخت عذاب ہے کیونکہ وہ آخرت کو بھول گئے ۔۔سورہ ص 26
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی اپنے نبی کو بڑے سخت الفاظ میں فرما رہے ہیں کہ تم زمین میں خلیفہ مقرر کئے گئے ہو سو اللہ کی راہ سے بھٹک کر اپنے نفس کی پیروی کے پیچھے لگ کر حق کے خلاف فیصلے نا کر بیٹھنا ورنہ ٹھکانہ جہنم ہو گا حالانکہ نبی جنت کے وارث اور معصوم الخطاء ہوتے ہیں مگر اللہ کا مقصد نبی کی مثال دے کر ہمیں سمجھانا ہے
والدین اولاد کے خلیفہ ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کے مابین حق کیساتھ وراثت کی تقسیم کریں جو اسلام نے بتا دی بصورت دیگر وہ جہنم کے حقدار ہونگے لہذہ وراثت تقسیم کرتے وقت عورتوں،بہنوں اور بیٹیوں کو بھی ان کا اسلام کی رو سے مقرر کردہ حق لازمی دینا چاہیے ہاں اگر کوئی بہن بیٹی اپنا حق نہیں لیتی تو اس کی مرضی اور آج ہے بھی ایسا زیادہ تر عورتیں اپنے بھائیوں بھتیجوں کو اپنا حق فی سبیل اللہ دے دیتی ہیں جو کہ ان کی اعلی ظرفی کی بہت بڑی پہچان ہے
حقوق خواتین پر میرے شفیق نبی علیہ السلام نے بہت زور دیا
اس پر ایک صحابی رسول فرماتے ہیں
کہ میں نے پوچھا ،یارسول اللہ میں کس کے ساتھ نیک سلوک اور صلح رحمی کروں؟ آپ نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ،میں پھر پوچھا کس کے ساتھ؟ آپ نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ میں نے پھر پوچھا پھر کس کے ساتھ؟ آپ نے پھر فرمایا اپنی ماں کیساتھ میں نے پھر پوچھا پھر کس کے ساتھ؟ آپ نے فرمایا اپنے باپ کیساتھ میں پھر پوچھا کس کے ساتھ تو آپ نے فرمایا رشتہ داروں کے ساتھ پھر سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار پھر اس کے بعد درجہ بدرجہ۔۔۔ ترمذی 1645
اس حدیث میں صحابی رسول کے صلح رحمی کے متعلق پوچھنے پر تین بار ماں اور پھر اس کے بعد باپ اور پھر اس کے بعد قریبی رشتہ داروں اور پھر درجہ بدرجہ ان کے رشتہ داروں کے ساتھ صلح رحمی کا حکم دیا اس سے معلوم ہوا ہماری صلح رحمی، حق گوئی اور انصاف کے سب سے زیادہ حقدار ہمارے ماں باپ اور رشتہ دار ہیں تو جب مسئلہ وراثت میں تقسیم کا ہوگا تو پھر سب سے پہلے صلح رحمی اور انصاف کے حقدار ماں باپ کے بعد بہنیں اور بیٹیاں کیوں نا ہونگیں؟
جہاں شرعیت نے بہنوں کا حق مارنا ممنوع قرار دیا ہے وہاں پاکستانی قانون نے بھی اس کی ممانعت کی ہے سپریم کورٹ آف پاکستان نے دو سال قبل والدہ کی طرف سے صرف بیٹوں کو ہی وراثت دینے پر اسے کالعدم قرار دے کر بیٹیوں کو بھی اس وراثت میں حصہ دینے کا حکم دیا اور کہا کے بیٹیوں کو ان کے شرعی وراثتی حق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا ، بحوالہ 2080 _ scmr 2018
بہنوں بیٹیوں کا حق مارنے والے اسلام کے بھی مجرم ہیں اور قانون پاکستان کے بھی ایسے بندے کی معاشرے میں کوئی عزت نہیں ہوتی اور وہ دنیا میں تو رسواء ہوتا ہی ہے روز قیامت بھی رسوا ہو گا کیونکہ اسلام میں کسی غیر کا حق مارنے کی اجازت نہیں تو پھر اپنی سگی بہنوں، بیٹیوں کا حق مارنے والوں کو کسطرح اجازت ہو گی؟
لہذہ ماں باپ تقسیم ترکے کے وقت بیٹیوں کا حق ادا کرنا ہرگز نا بولیں اور بیٹوں کیساتھ بیٹیوں کا جائز حق بھی انہیں ادا کریں تاکہ ان کے جگر کا ٹکڑا جو اب کسی اور کے گھر کی زینت ہے وہ بھی اپنے شرعی حق کو لے کر عزت و سکون سے گزر بسر کرسکے
یقین کریں آج جہیز جیسی لعنت کو ختم کرکے اس جائز شرعی حق کو ادا کرنے کی ضرورت ہے تبھی ہمارا معاشرہ ترقی کر سکے گا ورنہ بیٹیوں ،بہنوں کے حق مارنے سے ہم عذاب الٰہی کے حقدار تو ہیں اللہ کی رحمت کے ہرگز نہیں کیونکہ چور، ڈاکو حق مارنے والے اور غاصب کبھی فلاح نہیں پاتے
اللہ تعالی ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

Leave a reply