بجلی کا بل، سولی کا پھندہ اور حافظ نعیم الرحمان کی خاموشی
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفےٰ بڈانی
پاکستان میں بجلی کے بل اب صرف ایک گھریلو خرچ نہیں رہے بلکہ غریب اور متوسط طبقے کے لیے موت کا پروانہ بن چکے ہیں۔ یہ بل کسی بھی وقت کسی کا چولہا بجھا سکتے ہیں، کسی بچے کے سکول کی فیس روک سکتے ہیں یا کسی بوڑھے ماں باپ کی دوا چھین سکتے ہیں۔ لیکن مسئلہ صرف قیمتوں کا نہیں بلکہ اس ظالمانہ اور غیر منصفانہ "سلیب سسٹم” کا ہے جو عوام کو ایک ایسے شکنجے میں کس چکا ہے جہاں ایک یونٹ کا فرق زندگی اور موت کی لکیر بن چکا ہے۔
حکومتی پالیسی کے مطابق اگر کوئی صارف 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرتا ہے تو اسے سبسڈی دی جاتی ہے اور قیمت فی یونٹ 10.54 روپے سے 13.01 روپے تک ہوتی ہے۔ مگر جیسے ہی یہ تعداد 201 یونٹ ہو جائے تو وہ صارف نان پروٹیکٹڈ کیٹگری میں شامل ہو جاتا ہے جہاں فی یونٹ قیمت 33.10 روپے ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ بجلی کے بل میں کئی اقسام کے ٹیکس اور سرچارجز شامل ہو کر بل کو ناقابل برداشت بنا دیتے ہیں۔ ایک عام صارف کا 200 یونٹ کا بل تقریباً 3,083 روپے بنتا ہے، لیکن صرف ایک یونٹ اضافے پر یعنی 201 یونٹ پر بل 8,154 روپے ہو جاتا ہے۔ صرف ایک یونٹ کا فرق اور بل میں 5,071 روپے کا اضافہ؟ یہ مذاق نہیں، معاشی ظلم ہے۔
ایکس(ٹویٹر) پر لوگ اپنے بل شیئر کر رہے ہیں۔ کہیں 199 یونٹس کا بل 2,000 روپے ہے اور وہی صارف اگر 201 یونٹس استعمال کر لے تو بل 9,000 روپے سے تجاوز کر جاتا ہے۔ اس پر اگر کوئی اضافی سرچارج بھی لگ جائے تو غریب کے لیے بجلی جلانا ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں بے بسی، غصہ اور دکھ مل کر انسان کو یا تو خودکشی پر مجبور کرتے ہیں یا احتجاج پر۔
یہ کوئی مفروضہ باتیں نہیں ہیں میڈیا رپورٹس کے مطابق گوجرانوالہ کے انور کا بل صرف 3,800 روپے تھا لیکن عدم ادائیگی پر اس کا کنکشن کاٹ دیا گیا۔ اس نے ہمسائے سے بجلی لی تو گیپکو نے بجلی چوری کا مقدمہ درج کر دیا۔ یہ صدمہ برداشت نہ کرتے ہوئے انور کا بیٹا فراز تیزاب پی کر مر گیا۔ اس کی ماں کی چیخ، "میرا بیٹا بلوں کے چکر میں مر گیا” ایک ایسا جملہ ہے جو ہر قانون ساز کے کان میں گونجنا چاہیے۔ لاہور کا ریڑھی بان فیصل ہو یا ڈسکہ کی نسرین بی بی، سب کی کہانیاں ایک جیسی ہیں۔ کسی نے بل کی زیادتی سے تنگ آ کر خودکشی کی تو کسی نے اپنے خاندان کو کھو دیا۔
دوسری طرف وہ اشرافیہ ہے جسے بجلی یا تو مفت فراہم کی جا رہی ہے یا انتہائی رعایتی نرخوں پر۔ سینئر صحافی حامد میر نے ایکس (ٹویٹر)پر ایک بل کی تصویر شیئر کی جس میں واپڈا کے ایک ملازم نے 1,200 یونٹس بجلی استعمال کی اور صرف 716 روپے ادا کیے۔ ملتان میں ایک افسر کے 895 یونٹس کے بل کی رقم صرف 1,201 روپے تھی۔ یعنی یہ لوگ 1.5 روپے فی یونٹ سے بھی کم میں بجلی حاصل کر رہے ہیں جبکہ عام صارف 201 یونٹ پر 8,000 سے 11,000 روپے ادا کر رہا ہے۔ یہ دہرا معیار معاشرے میں غصہ، محرومی اور بغاوت کو جنم دے رہا ہے۔
یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب موجودہ حکومت، خاص طور پر وزیر توانائی اویس لغاری بجلی کے مسائل کا کوئی عملی حل دینے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں۔ عوام کو اس نظام میں پھنسا دیا گیا ہے جہاں لائن لاسز، بجلی چوری، مفت بجلی کی سہولیات اور مہنگے نجی پاور پلانٹس کے کیپیسٹی چارجز کا بوجھ ان صارفین پر ڈالا جا رہا ہے جو نہ چوری کرتے ہیں، نہ مفت بجلی استعمال کرتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ایماندار صارف ہی اس پورے کرپٹ نظام کا اصل شکار بن چکا ہے۔
یہی وہ لمحہ ہے جب عوام نے توقع کی تھی کہ کوئی ان کا مقدمہ لڑے گا اور یہ توقع حافظ نعیم الرحمان سے تھی۔ وہی حافظ نعیم جو ماضی میں کے الیکٹرک کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے تھے، عوامی مظاہروں کی قیادت کرتے تھے اور بجلی کے ہر بحران پر سڑکوں پر احتجاج کرتے تھے۔ لیکن آج جب ظلم پورے ملک میں سلیب سسٹم کی صورت میں نافذ ہے، عوام خودکشیاں کر رہے ہیں تو حافظ نعیم کی خاموشی حیران کن اور تکلیف دہ ہے۔
کیا جماعت اسلامی نے اپنی سیاسی حکمت عملی بدل لی ہے؟ کیا حالیہ انتخابی نتائج نے ان کے احتجاجی جذبے کو ماند کر دیا ہے؟ یا وہ کسی مفاہمتی پالیسی کے تحت خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں؟ ان سوالات کا جواب خود حافظ نعیم الرحمن کو دینا ہوگا۔ کیونکہ عوام اب اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں انہیں جذباتی تقاریر نہیں، عملی مزاحمت چاہیے۔ ان کی خاموشی اس تاثر کو تقویت دیتی ہے کہ جماعت اسلامی اب حکومتی دباؤ یا مصلحت کے تابع ہو چکی ہے۔
عوام نے 201 یونٹ کی سلیب گردی کو مسترد کر دیا ہے۔اس سسٹم کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ سوشل میڈیا پر "NoMoreSlabLooting” جیسے ٹرینڈز روزانہ کی بنیاد پر چل رہے ہیں۔ صارفین یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ سلیب سسٹم کو ختم کیا جائے،اداکار نعمان اعجاز نے ایکس(ٹویٹر) پر لکھا، "200 یونٹ والی بدمعاشی ختم کریں۔” عوام مطالبہ کر رہے ہیں کہ سلیب سسٹم اصلاح کیا جائے، اشرافیہ کی مفت بجلی ختم ہو، پن بجلی اور قابل تجدید توانائی سے سستی بجلی بنائی جائے اور ٹیکسز و سرچارجز ہٹا کر شفاف نظام لایا جائے۔ یہ ظلم کب تک جاری رہے گا؟ جب تک اشرافیہ کو مراعات ملتی رہیں گی اور عام صارف پر بوجھ ڈالا جاتا رہے گا، عوامی غصہ بڑھتا رہے گا۔
جناب وزیراعظم میاں شہباز شریف، عوام کا غیض و غضب نوشتہ دیوار ہے۔ 201 یونٹ کی سلیب گردی اور اشرافیہ کی مفت بجلی سولی کا پھندہ ہے جو غریب پاکستانیوں کو موت کے منہ میں دھکیل رہی ہے۔ آپ ہمیشہ اقتدار میں نہیں رہیں گے۔ جب آپ عوام کے سامنے جائیں گے، تو اشرافیہ کے سہارے آپ کو عوام کے غیض و غضب سے نہیں بچا سکیں گے۔ یہ غصہ، جو سڑکوں پر، سوشل میڈیا پر اور ہر گھر میں پھیل چکا ہے، آپ کی حکومت کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا۔ فوری طور پر سلیب سسٹم کی اصلاح کریں، مفت بجلی کی مراعات ختم کریں اور غریب کو سستی بجلی دیں۔ ورنہ، تاریخ آپ کو اس حکمران کے طور پر یاد رکھے گی جس نے عوام کو معاشی عذاب میں جکڑ زندہ درگور کردیا۔