بہت پیارے لمحے ساتھ گزار کر پھر وہ کسی اجنبی کے ہاتھ میں اپنی بیٹی کا ہاتھ بڑے حوصلے سے تھما دیتے ہیں اور پھر کہیں کونے میں چھپ کے آنسو بہا لیتے ہیں, بیٹیوں کے دکھ کو جیسے اپنا دکھ بنا لیتے ہیں.
اپنی بیٹیوں کی پرورش وہ ایسے کرتے ہیں جیسے وہ شہزادیاں ہوں, انکے جہیز میں چاہے قرض لینا پڑ جائے پر کوئی کمی نہیں چھوڑتے
ہاں ایک چیز جو وہ نہیں دے سکتے وہ ہے اچھا نصیب…
کئی دفعہ والدین کے غلط فیصلے اولاد کے لئے ساری زندگی کا دکھ بن جاتے ہیں اور بعض دفعہ اولاد اپنی ضد اور ناسمجھی سے اپنے لئے خود گڑا کھود دیتی ہے.
میرے خیال میں عمر کا 16 سے 25 سال کا دورانیہ انتہائی نازک ہوتا ہے. اس میں اگر انسان سنبھل جائے تو اپنے لئے ایک بہتر مستقبل بنا سکتا ہے مگر اس دوران اگر ناسمجھی میں اپنی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ بنا سوچے سمجھے کردے تو ساری زندگی اسکا پچھتاوا ایک سائے کی طرح پیچھا کرتا رہتا ہے.
جب اس نے ماں باپ کی مرضی کے خلاف اپنی شادی کا فیصلہ کیا تب وہ میٹرک کی طلبہ تھی اور تقریباً 15 سال اسکی عمر تھی اور دو بھائیوں کی اکلوتی بہن ،ان دنوں میٹرک کے امتحانات ہو رہے تھے گھر سے پیپر دینے نکلی مگر دل میں یہ فیصلہ کرکے نکلی کہ وہ واپس اس گھر میں نہیں جائے گی جہاں اسکی پسند کو ترجیح نہیں دی جاتی .مگر وہ آج اس دوراھے پر کھڑی ہے کہ فیصلہ کرنا مشکل ہورہا کہ وہ اپنے لئے کونسا راستہ اختیار کرے ،ماں باپ کی مرضی کے خلاف جاکر اس نے اپنا مستقبل داؤ پہ لگا کر تعلیم ادھوری چھوڑ کر اپنی پسند کی شادی کر لی اسکے والدین نے لڑکے پر اغواء کا کیس کردیا کیس عدالت میں چلا وہاں ماں باپ نے پوری کوشش کی کہ انکی بیٹی انکو واپس مل جائے اس لئے انہوں نے کہا کہ ہماری بیٹی کی عمر 15 سال ہے اس لئے ہم اس نکاح کو نہیں مانتے پر وہاں لڑکی نے لڑکے کے حق میں بیان دے دیا کہ میں بالغ ہوں اور اپنی مرضی سے شادی کرنا میرا حق ہے اس لئے میں نے اپنی مرضی سے اپنی پسند سے شادی کی ہے
یوں کیس ختم ہوگیا لڑکی اپنے سسرال چلی گئی جہاں اسکی سوتیلی ساس اور اسکی زندگی کے امتحان اسکا منتظر تھے
کچھ عرصہ تو سب ٹھیک رہا مگر پھر آہستہ آہستہ وہی گھریلو مسائل بڑھنے لگے, ساس کو اس لڑکی سے کافی شکایات تھیں
نازو سے پلی بڑھی یہ بچی ساس کو خوش رکھنے کے لئے گھر کے سب کام کرنے لگی مگر سب بے سود
ہم کہتے ہیں کہ عورت بہت مظلوم ہوتی ہے مگر اگر اس کے پس منظر میں جا کے دیکھیں تو یہ حقیقت بھی سامنے آ جائے گی کہ بعض دفعہ عورت ہی عورت کی دشمن ہوتی ہے اور یہاں بھی کچھ ایسا ہی حال تھا ،لڑکی کا اپنے ماں باپ سے ملنا جلنا بند تھا مگر جب بیٹی کے پیار میں مجبور ہوکر والدین اس کو ملنے جاتے تو ان کے ساتھ ناروا سلوک رکھا جاتا ،لڑکا خود مجبور تھا کیونکہ وہ خود طالب علم تھا اور اپنی سوتیلی ماں اور باپ کے رحم کرم پہ تھا آخر ایک دن تنگ آکر وہ الگ مکان کرائے پہ لے کر بیوی کو ساتھ لے گیا
ایک سال بعد اللہ نے انکو ایک بیٹے سے نوازا بیٹے کی پیدائش پر لڑکے کا باپ لڑکی کو گھر لے آیا کہ اب اکٹھے رہیں گے
مگر حالات بدستور ویسے ہی رہے اور آخر ایک دن گھر میں ہنگامہ ہوگیا کہ لڑکی نے اپنی ساس کی جیولری چوری کی ہے
لڑکی نے ہر طرح سے یقیں دلانے کی کوشش کی مگر کسی کو اس پر یقین نہ آیا اور معاملہ ایسا بگڑا کہ لڑکے کو مجبور کیا گیا کہ اس کو طلاق دو
لڑکے نے طلاق دے دی
وہ بے چاری کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا سوائے اسی ماں باپ کے جن کو وہ چھوڑ دی تھی
مجبوراً بچے کو لے کر ماں باپ کے گھر چلی گئی, ماں باپ تو پھر ماں باپ ہوتے ہیں جو اولاد کی غلطیوں کو معاف کرکے بھی گلے لگا لیتے ہیں
ادھر جب لڑکے کو احساس ہوا کہ اس نے کتنی بڑی غلطی کردی تو بہت پچھتایا مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت ،کچھ ٹائم بعد لڑکی کے والدین نے لڑکی کی شادی کردی مگر وہ وہاں خوش نہیں تھی وہ اب بھی سابقہ شوہر کے پاس جانا چاہتی تھی مگر اسکے شوہر نے اسے طلاق دینے سے صاف انکار کردیا.
جب لڑکے کے گھر والوں کو معلوم ہوا کہ لڑکی وہاں سے طلاق لے کر واپس سابقہ شوہر کے پاس آنا چاہتی ہے تو انھوں نے لڑکے کو بہلا پھسلا کر نئی جگہ جلد بازی میں شادی کردی اور یہ لڑکی اب اپنے والدین کی چوکھٹ پہ بیٹھی ہے
اسکی داستان سن کر میں نے اسے مشورہ دیا کہ بیٹا واپس شوہر کے پاس چلی جاؤ اس لڑکے نے تو شادی کرلی ہے پر اسکی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے کہ آنٹی میں مر جاؤں گی میں اسکے بغیر جی نہیں سکتی, کوئی میری حالت کو سمجھتا کیوں نہیں ہے تو پھر شوہر کو بولو طلاق دے دے تو اس نے انکشاف کیا کہ شوہر نے شرط رکھی ہوئی ہے کہ میرا زیور اور پیسے واپس کرو میں طلاق دے دونگا. میں نے اسے کہا تو اسکی چیزیں واپس کردو ناں..
آنٹی میرے پاس اسکا کچھ بھی نہیں ہے زیور اور پیسے مما کے پاس ہیں اور مما نہیں چاہتی میں طلاق لوں
تو پھر کیا اسی طرح لٹکی رہو گی ؟؟
وہ میری باتیں چپ کرکے سن رہی تھی مگر اسکی آنکھیں آنسوؤ سے تر تھیں
میری کسی بات کا جواب اسکے پاس نہیں تھا وہ اب یقینی اور بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا تھی کہ آیا وہ یہاں سے طلاق لے گی تو سابقہ شوہر اس سے شادی کرے گا یا نہیں
سابقہ شوہر کو چھوڑنا اسکے اختیار میں نہیں تھا. واقعی محبت بڑا نرم اور پیارا جذبہ ہوتا ہے محبت والے دل بس محبت کرنا جانتے ہیں. اپنی کسی ضد کسی مقابلے بازی یا انا کے جھگڑوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی
جس کے لئے اس نے اپنی زندگی لٹا دی تھی اسی نے اس کو بری طرح توڑ کے دکھوں کے حوالے کردیا تھا. وہ اپنی زندگی کا ایک غلط فیصلہ کرکے اپنی زندگی کی خوشیوں کو داؤ پہ لگا چکی تھی. جس محبت کے لئے وہ جی رہی تھی اسی محبت نے اسے اندر سے کھوکھلا کردیا تھا.
کیا خوب کہا کسی نے
پانی آنکھ میں بھر کے لایا جاسکتا ہے
اب بھی جلتا شہر بچایا جاسکتا ہے
ایک محبت اور وہ بھی ناکام محبت
لیکن اس سے کام چلایا جاسکتا ہے.
اس کی عمر مشکل سے 19 سال ہے اور ایک بیٹے کی ماں
اور وہ ماں جسے نہ تو اپنے مستقبل کا تعین اور نہ اپنے بیٹے کے اچھے مستقبل کی امید
کیا آ گے زندگی میں بھی اسکے یا اس جیسی لڑکیوں کے ساتھ یہ امتحانات پیش آتے رہے گے ؟؟
عورت اگر عورت کی ڈھال بن جائے تو کوئی اسکا مقابلہ نہیں کرسکتا. یہاں اگر سوتیلی ساس کھلے دل سے اس بچی کو اپنا لیتی یا اس کی غلطیوں کو درگزر کرکے اسے بہو کی بجائے بیٹی کا درجہ دے دیتی تو آج اس لڑکی کا اور اس کے بچے کا مستقبل داؤ پر نہ لگتا.
کہیں نہ کہیں عورت ہی عورت کے لئے مشکلات پیدا کرتیں ہیں
کبھی تہمت لگا کر, کبھی نیچا دکھا کر یا کبھی سازش کرکے..
@Rehna_7