1.4 ارب آبادی والے بھارت میں 100 کروڑ لوگوں کی یہ حالت ہے کہ ان کے پاس اشیائے ضروریہ کے علاوہ کچھ بھی خریدنے کو پیسے نہیں ہیں۔

’بلوم وینچرز‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ضرورت سے زیادہ خرچ کرنے والے لوگوں کی تعداد 14-13 کروڑ کے درمیان محدود ہے۔ یہ نمبر اترپردیش کی آبادی سے بھی کم ہے۔ اس کے علاوہ 30 کروڑ ایسے لوگ ہیں جو دھیرے دھیرے خرچ کرنا سیکھ رہے ہیں، لیکن ان کی جیبوں میں اتنے پیسے نہیں بچ رہے کہ وہ اضافی خرچ کر سکیں۔ رپورٹ میں اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ ہندوستان میں امیروں کی تعداد میں اس تیز رفتاری کے ساتھ اضافہ نہیں ہو رہا ہے جتنی تیزی سے امیروں کی دولت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یعنی جو پہلے سے امیر ہیں وہ مزید امیر ہوتے جا رہے ہیں، لیکن نئے امیروں کی تعداد میں خاصہ اضافہ نہیں ہو رہا۔

اس کا اثر براہ راست بازار پر پڑ رہا ہے۔ کمپنیاں اب سستی مصنوعات بنانے کے بجائے مہنگے اور پریمیم پروڈکٹس بنانے پر زور دے رہی ہیں۔ مثلاً لگژری اپارٹمنٹس کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے اور سستے (قابل استطاعت) گھروں کی حصہ داری گزشتہ 5 سالوں میں 40 فیصد سے کم ہو کر صرف 18 فیصد رہ گئی ہے۔ قیمتی اسمارٹ فون تو تیزی سے فروخت ہو رہے ہیں، لیکن سستے ماڈل کے خریدار کم ہو گئے ہیں۔ کولڈ پلے اور ایڈ شیران جیسے بین الاقوامی ستاروں کے مہنگے کنسرٹ ٹکٹ پلک جھپکتے ہی فروخت ہو جاتے ہیں، لیکن عام لوگوں کے لیے تفریح مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔

’مارسیلس انویسٹمنٹ مینیجرز‘ کے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان کا متوسط طبقہ بھی مشکلات میں پھنستا جا رہا ہے۔ مہنگائی میں تو اضافہ ہو رہا ہے، لیکن ان کی تنخواہ میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہو رہا۔ گزشتہ 10 سالوں میں ٹیکس دینے والے متوسط طبقے کی آمدنی عملی طور پر جمود کا شکار رہی ہے۔ یعنی مہنگائی کے حساب سے دیکھیں تو ان کی تنخواہ نصف ہو گئی ہے۔ اگر آج کی بات کریں تو متوسط طبقے کی بچت گزشتہ 50 سال کی کم ترین سطح پر ہے۔ لوگوں کی ضروریات میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا ہے۔

عالمی تحفظ ختم نبوت کانفرنس پچنند .تحریر:فیصل رمضان اعوان

آسکر ایوارڈ یافتہ امریکی اداکار جین ہیکمین اور اہلیہ کی لاشیں برآمد

نواز شریف سیاسی میدان میں دوبارہ سرگرم،عید کے بعد جلسوں کا فیصلہ

Shares: