نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ،بھارتی حکومت جموں و کشمیر کی متنازع حیثیت سے متعلق ماضی کے معاہدوں سے انحراف کر رہی ہے، یہ کھلا تضاد ہے،ہمیں کسی سے لڑنا نہیں لیکن کسی کو میلی آنکھ سے دیکھنے بھی نہیں دیں گے، کوئی پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے گاتو ہم اس کی آنکھیں نکال دیں گے۔

وفاقی دارالحکومت میں یوم استحصال کشمیر ریلی سے خطاب کرتے ہوئے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے کہا کہ یومِ استحصال ہمیں بھارت کے غیر قانونی اقدامات کی یاد دلاتا ہے، بھارت نے پانچ اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی، بھارت نے جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے لداخ کو الگ کر دیا، بھارت نے مقامی باشندوں کے خصوصی حقوق بھی سلب کر لیے۔

اسحاق ڈار نے کہاکہ جمہوریت کے نام پر تمام سیاسی قیادت کو قید و نظر بند کیا گیا، کشمیر میں طویل لاک ڈاؤن اور شہری آزادیوں پر قدغنیں لگائی گئیں، بھارتی حکومت نے جمہوریت اور ترقی کے نام پر بنیادی حقوق سلب کیے، موجودہ بھارتی قیادت مقبوضہ کشمیر پر قبضہ مستحکم کر رہی ہے، بھارتی سپریم کورٹ نے حکومت کے 5 اگست کے اقدامات کو برقرار رکھا۔

انہوں نے کہاکہ پچھلے 6 برسوں میں بھارت نے کشمیری قوانین میں متعدد ترامیم کیں، بھارت نے لیفٹیننٹ گورنر کے اختیارات میں اضافہ کیا، بھارتی اقدامات کشمیریوں کے حق خودارادیت پر کھلا حملہ ہیں، بھارت مقبوضہ کشمیر کو اپنا داخلی معاملہ قرار دیتا ہے، بھارت کا دعویٰ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے، بھارت ہی مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے کر گیا تھا، اب وہ ان قراردادوں پر عملدرآمد سے انکار کر رہا ہے، اقوام متحدہ چارٹر کی شق 25 تمام ممالک کو قراردادوں کا پابند کرتی ہے، بھارت کا رویہ اقوام متحدہ کے چارٹر، اخلاقی اصولوں اور زمینی حقائق کے منافی ہے۔

نائب وزیراعظم نے کہاکہ بھارت نے مقبوضہ وادی میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی سازش کی، غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل اور مقامی ووٹر لسٹ میں اندراج کا حق دیا گیا، بھارت نے جائیداد کی خرید و فروخت کا دروازہ باہر کے افراد کیلئے کھولا،بھارت کا مقصد کشمیریوں کو ان کی ہی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل کرنا ہے، کشمیر کی ثقافت کو مٹانے کے لیے بھارتی رنگ تھوپا جا رہا ہے، سری نگر میں دہلی کی کٹھ پتلی حکومت مسلط کر دی گئی ہے، ایسی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا جو دہلی کے احکامات پر چلے۔

انہوں نے بھارت کی کشمیر پالیسی کو پاکستان اور پاکستانی قوم کیلئے ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے کہاکہ پچھلے 48 گھنٹے میں بھارت نے نیا شوشا چھوڑا ہے، جموں و کشمیر اور لداخ کو یونین ٹیریٹری قرار دینے کے بعد نئی تقسیم کی باتیں ہورہی ہیں، بھارتی میڈیا جموں کو ریاستی درجہ دیے جانے کی خبریں چلا رہا ہے، مقبوضہ کشمیر کو یونین ٹیریٹری ہی رکھنے کا عندیہ دیا جا رہا ہے، بھارت کے یہ اقدامات قابلِ مذمت ہیں،بھارتی حکومت جموں و کشمیر کی متنازع حیثیت سے متعلق ماضی کے معاہدوں سے انحراف کر رہی ہے، یہ کھلا تضاد ہے۔

انہوں نے اگست 2019 کے بھارتی اقدامات اقوام متحدہ، انسانی حقوق معاہدوں اور چوتھے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہاکہ بھارتی آئین کے تحت کیا گیا کوئی اقدام کشمیریوں کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کر سکتا،مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں بھارتی اہلکار تعینات ہیں، بھارتی فوج انسانی حقوق پامال کر رہی ہے، کشمیری خوف اور جبر کی فضا میں جی رہے ہیں، ہزاروں کشمیری سیاسی قیدی جیلوں میں، سیکڑوں کی جائیدادیں ضبط کرلی گئیں جبکہ میڈیا کو خاموش کر دیا گیا ہے، غیرملکی میڈیا کو کشمیر تک رسائی نہیں دی جا رہی۔

نائب وزیراعظم نے کہاکہ مقبوضہ وادی میں انسداد دہشتگردی قوانین کا بےجا استعمال کیا جارہا ہے جبکہ 16 جماعتیں پابندیوں کا شکار ہیں، ہزاروں کشمیری خواتین نیم بیوگی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جنہیں شوہروں کی زندگی یا موت کا علم نہیں، نامعلوم قبروں میں دفن شہدا کی شناخت نہیں ہو سکی، اس حوالے سے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ضرورت ہے، ہمیں کسی سے لڑنا نہیں لیکن کسی کو میلی آنکھ سے دیکھنے بھی نہیں دیں گے، کوئی پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے گاتو ہم اس کی آنکھیں نکال دیں گے۔

Shares: