بھارت میں مذہبی اقلیتوں، خصوصاً مسیحی برادری کے خلاف انتہا پسند عناصر کی کارروائیوں میں حالیہ دنوں کے دوران نمایاں شدت دیکھنے میں آ رہی ہے۔

ذرائع کے مطابق کرسمس کی تقریبات کو روکنے کے لیے نئے ہتھکنڈے اختیار کیے جا رہے ہیں، جن میں براہِ راست دھونس، دھمکیاں اور خوف و ہراس پھیلانا شامل ہے۔ حکمراں جماعت بی جے پی سے وابستہ بعض عہدے دار اور انتہا پسند عناصر گرجا گھروں میں زبردستی داخل ہو گئے، جہاں انہوں نے مسیحی برادری کو کرسمس کی تقریبات منعقد نہ کرنے کی ہدایات دیتے ہوئے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ انتہا پسندوں کا کہنا تھا کہ بھارت میں اس قسم کے مذہبی تہوار منانے کی اجازت ہرگز نہیں دی جا سکتی، اور خبردار کیا گیا کہ اگر کرسمس منایا گیا تو مسیحیوں کو ملک سے نکال دیا جائے گا۔

سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بھی تیزی سے وائرل ہو رہی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نئی دہلی میں ایک عوامی مقام پر کرسمس منانے والے افراد کو زبردستی وہاں سے ہٹا دیا گیا۔ ویڈیو میں واضح ہے کہ لوگ پرامن طور پر تہوار منا رہے تھے، تاہم انتہا پسند عناصر نے مداخلت کرتے ہوئے انہیں علاقہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔دوسری جانب، گزشتہ دنوں ریاست چھتیس گڑھ میں بھی انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے مبینہ طور پر مسیحی خاندانوں کے گھروں کو نذرِ آتش کرنے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں، جس سے مقامی آبادی میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ ان واقعات نے اقلیتوں کے تحفظ پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

ان واقعات کے خلاف بھارتی سول سوسائٹی، انسانی حقوق کے کارکنوں اور سماجی تنظیموں نے شدید احتجاج کیا ہے۔ مظاہرین نے ان کارروائیوں کو شرمناک اور آئینِ ہند میں دی گئی مذہبی آزادی کی صریح خلاف ورزی قرار دیا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ سرکاری خاموشی اور بعض سیاسی عہدے داروں کی مبینہ حمایت انتہا پسند عناصر کو مزید حوصلہ دے رہی ہے، جس کے نتیجے میں اقلیتوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔سیاسی و سماجی تجزیہ کاروں کے مطابق یہ حملے نہ صرف مذہبی آزادی پر حملہ ہیں بلکہ بھارت میں اقلیتوں کے لیے بڑھتے ہوئے خوف، دباؤ اور عدم تحفظ کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر بروقت اور مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو ملک میں سماجی ہم آہنگی کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔

Shares: