بھارتی فضائیہ کے جنگی جہاز مگ 21 کو آج باقاعدہ طور پر الوداع کہہ دیا گیا۔

چھ دہائیوں سے زائد عرصے تک بھارتی فضائیہ کی ریڑھ کی ہڈی رہنے والے اس سویت دور کے لڑاکا طیارے نے آخری بار پرواز کی اور اپنے بازو جھکاتے ہوئے نسل در نسل پائلٹس کو الوداع کہا۔ یہ طیارے چنڈی گڑھ کی فضا میں آخری بار پرواز کر کے واپس اترے تو انہیں واٹر کینن سلامی دی گئی۔چنڈی گڑھ یہی وہ مقام تھا جہاں 1963 میں مگ 21 پہلی بار بھارتی فضائیہ میں شامل ہوا تھا، جب سوویت یونین نے 13 طیاروں کا پہلا بیچ بھارت کو فراہم کیا۔ایئر چیف مارشل کے ساتھ اسکواڈرن لیڈر پریا شرما نے بھی آخری فلائی پاسٹ میں شرکت کی۔ وہ بھارت کی ساتویں خاتون فائٹر پائلٹ ہیں ،الوداعی تقریب میں وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ سمیت کئی اعلیٰ فوجی افسران شریک ہوئے۔

مگ 21 کو آخری سالوں میں "فلائنگ کفن” یعنی اڑتا تابوت کہا جانے لگا۔ کئی حادثات اور ہلاکتوں کے بعد اس پر تنقید بڑھ گئی۔ 2023 میں راجستھان میں ایک حادثے کے دوران تین شہریوں کی ہلاکت کے بعد اس طیارے کو عارضی طور پر گراؤنڈ کر دیا گیا تھا۔

مگ 21 بھارت کا پہلا سپرسونک جیٹ تھا جس نے 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں تکنیکی برتری حاصل کی لیکن بعد میں اکثر حادثات کی وجہ سے بدنام ہو گیا۔ مگ 21 کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھارتی فضائیہ کی جنگی صلاحیت کم ہو کر 29 اسکواڈرن رہ جائے گی جو 1960 کی دہائی کے بعد سب سے کم ہے۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران بھارتی فضائیہ کے پاس لڑاکا طیاروں کے 32 اسکواڈرن تھے۔ مگ 21 طیارہ سوویت یونین کے Mikoyan-Gurevich ڈیزائن بیورو نے تیار کیا تھا اور اس نے اپنی پہلی پرواز 1955 میں کی تھی۔ اس سپرسونک طیارے کو دنیا کے تقریباً 60 ممالک استعمال کر چکے ہیں۔ بھارت اس کا سب سے بڑا آپریٹر ہے۔ مگ 21 طیاروں کے حادثات کی ایک پریشان کن تاریخ ہے۔ اب تک اس طیارے کے حادثات میں 200 سے زیادہ پائلٹ اور 50 شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس طرح کا پہلا واقعہ 1963 میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ 1966 سے 1984 کے درمیان تیار کیے گئے 840 طیاروں میں سے نصف سے زیادہ حادثات کی وجہ سے تباہ ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے مگ 21 کو ‘دی فلائنگ کفن’ اور ‘دی ویڈو میکر’ جیسے القابات دئے گئے۔

Shares: