پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس کی کوریج کے لیے آنے والی خاتون بھارتی صحافی سہاسنی حیدر نے اس دورے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر کے اس دورے سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بہتری کی کوئی امید نہیں ہے۔ نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سہاسنی حیدر نے کہا کہ جے شنکر کا پاکستان آنا ایک مثبت اقدام ہے، لیکن اس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے تعلقات میں کوئی نرمی آتی ہے یا نہیں، یہ دیکھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کا گوا دورہ بھی ختم ہوا تو اس کے بعد تعلقات مزید خراب ہو گئے تھے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بہتری کے امکانات کم ہیں۔
سہاسنی حیدر نے مزید کہا کہ بھارتی سیاست میں یہ عمومی سوچ پائی جاتی ہے کہ اگر کسی بھی حکومت کی کوششوں کے باوجود پاکستان کے ساتھ تعلقات میں کوئی بہتری آتی ہے تو اس کا ایک حد تک ہی ہونا ممکن ہے۔ انہوں نے بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کی جانب سے کئی مرتبہ تعلقات میں بہتری کی کوششوں کا ذکر کیا، لیکن اس کے باوجود 2019 کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں نمایاں خرابی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر دونوں ممالک 2019 کی سطح پر بھی پہنچ جاتے ہیں تو یہ ایک بڑی پیشرفت ہوگی۔سہاسنی حیدر نے اس خدشے کا بھی ذکر کیا کہ بھارتی سیاست دانوں میں یہ خوف پایا جاتا ہے کہ اگر وہ کسی بھی نئی پہل کی کوشش کریں اور کوئی دہشتگرد حملہ ہو جائے تو ان کے لیے یہ ایک بڑی مصیبت بن سکتی ہے۔
دوسری جانب، بھارتی خاتون صحافی سمیتا شرما نے کہا کہ اگر جے شنکر کی پاکستانی حکام سے کوئی ملاقات ہوئی تو انہیں اس کی کوریج کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ وزیراعظم نریندرا مودی کا ایس سی او اجلاس کے لیے پاکستان نہ آنا ان کا سیاسی فیصلہ ہے، کیونکہ وہ ہیڈز آف اسٹیٹس کی میٹنگز میں شرکت کرتے ہیں نہ کہ ہیڈز آف گورنمنٹس کی میٹنگز میں۔سمیتا شرما نے مزید کہا کہ ایس سی او کے اجلاس سے چند دن قبل پاکستان میں ذاکر نائیک جیسے شخص کو مدعو کرنا، جو بھارت کی نظر میں اشتہاری ہے، ایک حساس معاملہ ہے۔ انہوں نے یہ بات کہی کہ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے جذبات کی قدر کرنی چاہیے، اور یہ بات اہم ہے کہ پاکستانی حکومت بھی کہہ رہی ہے کہ بھارت کو انہیں ڈی پورٹ کر دینا چاہیے۔یہ گفتگو دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدہ تعلقات کے پس منظر میں اہمیت رکھتی ہے، اور بھارتی صحافیوں کی آراء سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
بھارتی صحافیوں کا پاک-بھارت تعلقات پر مایوسی کا اظہار
