بارش بہا کے لے گئی تنکوں کا آشیاں ، بھیگے شجر کی شاخ پہ چڑیا اداس ہے

ایک روایتی اور مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئیں

مجھ کو تو خیر خانہ بدوشی ہی راس تھی
تیرے لیے مکان بنانا پڑا مجھے

سدرہ سحر عمران

سدرہ سحر عمران شاعرہ افسانہ وناول نگار ہیں۔ 08اگست 1986ء کو صوبہ سندھ کے شہر کراچی میں پیدا ہوئیں کالم اور ٹی وی کے لئے ڈراموں کے اسکرپٹ لکھتی ہیں۔ کئ میڈیا ہاوسز سے منسلک رہی ہیں۔ ایک روایتی اور مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئیں، ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کی اورکراچی یونیورسٹی سے اردو ادب میں ایم اے کیا سدرہ کی پانچ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ ’’ہم گناہ کا استعارہ ہیں‘‘ اور ’’موت کی ریہرسل‘‘ (نظموں کے مجموعے)۔ ایک ناول اورایک افسانوں کا مجموعہ ہے۔ ایک کتاب ’’نقش قلم‘‘ کے نام سے آئی تھی اس میں کافی تعداد میں اصلاحی، سماجی، تحقیقی اورعلمی مضامین شامل ہیں۔ ان کی شاعری میں سماجی مسائل اور احتجاج نمایاں ہیں۔ اور ان کی نظمیں انگریزی، ہندی، پشتو، سندھی، بلوچی، اور دیوناگری زبان میں ترجمہ ہوچکی ہیں۔

غزل
۔۔۔۔
تو حرف آخری مرا قصہ تمام ہے
تیرے بغیر زندگی کرنا حرام ہے

کرنے ہیں تیرے جسم پہ اک بار دستخط
تاکہ خدا سے کہہ سکوں تو میرے نام ہے

ہوتا ہے گفتگو میں بہت بار تذکرہ
یعنی ہوا چراغ کا تکیہ کلام ہے

پہلے پہل ملی تھی ہمیں شدتوں کی دھوپ
اب یوں ہے رابطے کی سرائے میں شام ہے

آخر میں بس نشاں ہیں سحرؔ کچھ سوالیہ
پھر اس کے بعد داستاں کا اختتام ہے

غزل
۔۔۔۔
غمگین بے مزہ بڑی تنہا اداس ہے
تیرے بغیر تو مری دنیا اداس ہے

پھیلا ہوا ہے رات کی آنکھوں میں سوز ہجر
مہتاب رت میں چاند کا چہرہ اداس ہے

لو پھر سے آ گیا ہے جدائی کا مرحلہ
آنکھیں ہیں نم مری ترا لہجہ اداس ہے

بارش بہا کے لے گئی تنکوں کا آشیاں
بھیگے شجر کی شاخ پہ چڑیا اداس ہے

شہزادہ سو گیا ہے کہانی سنے بغیر
بچپن کے طاق میں رکھی گڑیا اداس ہے

آنکھیں منڈیر پر دھرے گزری شب وصال
لپٹا ہوا کلائی سے گجرا اداس ہے

سورج لپٹ کے جھیل کے پانی سے رو دیا
منظر فراق شام کا کتنا اداس ہے

کس کو ہیں راس ہجر کی کٹھنائیاں سحرؔ
جتنا قریب ہو کوئی اتنا اداس ہے

غزل
۔۔۔۔
اسباب ہست رہ میں لٹانا پڑا مجھے
پھر خالی ہاتھ دہر سے جانا پڑا مجھے

سب لوگ تیرے شہر کے ماضی پرست تھے
مشکل سے حال میں انہیں لانا پڑا مجھے

پہلے بنائے آنکھ میں خوابوں کے مقبرے
پھر حسرتوں کو دل میں دبانا پڑا مجھے

مجھ کو تو خیر خانہ بدوشی ہی راس تھی
تیرے لیے مکان بنانا پڑا مجھے

کچھ اور جب رہا نہ ذریعہ معاش کا
کاندھوں پہ بار عشق اٹھانا پڑا مجھے

دنیا یہ گھومتی رہے پرکار کی طرح
اک دائرہ زمیں پہ بنانا پڑا مجھے

اک دن یہ جی میں آئی وہ آنکھیں ہی پھوڑ دوں
جن کے لیے عذاب اٹھانا پڑا مجھے

اپنے معاملے میں ہی شدت پسند تھی
اپنے لیے ہی جان سے جانا پڑا مجھے

Comments are closed.