آصف زرداری کی گرفتاری کے بعد میرمرتضی بھٹوکے قتل پر پھر سوال اٹھنےلگے

سابق وزیر اعظم بے نطیر بھٹو کے بھائی میر مرتضی بھٹو کے قتل کو 23 سال گزر گئے پی پی حکومت کا دور بھی آیا لیکن مجرموں کو کوئی سزا نہ ہو سکی فاطمہ بھٹو اب بھی اپنے باپ کے انصاف کی منتظر.آصف علی زرداری کی گرفتاری پر پھر سوالات جتم لینے لگے
سابق صدر آصف علی زردای کی گرفتاری کو بھٹو خاندان کی قربانیوں اور قتل سے منسوب کرنے پر فاطمہ بھٹو نے اپنے جذبات کا اظہار کرتےہوئے کہا کہ آصف علی زرداری کی گرفتاری کا مجھ پر بحیثیت بیٹی کچھ اثر نہیں ہے کیونکہ اس اقدام سے میرے پیارے والد کو واپس نہیں لایا جا سکتا کہ جنہیں میں نےاپنی آنکھوں کے سامنے مرتے دیکھا. دوسری ٹویٹ میں فاطمہ بھٹو نے کہا کہ بحیثیت بیٹی مجھے خدا کے انصاف کا انتظار ہے اور میں چاہتی ہوں کہ اس کے بعد کوئی بیٹی بھی اس طرح درد اور تکلیف میں مبتلا نہ ہو کہ جیسے 23 سال قبل میرے والد کو میری آنکھوں کے سامنے ان کے قریبی ساتھیوں کے ہمراہ بے دردی سے گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا.

باغی ٹی وی رپورٹ کے مطابق سابق صدر اور پیبلزپارٹی کے شریک چیئرمین کی گرفتاری پر یہ بحث پھر چھڑ گئی کہ بھٹو خاندان قید و بند کی صعوبتیں اور قربانیاں دیتا آیا ہے اور زداری کی گرفتاری اسی سلسلے کی کڑی ہے پیپلز پارٹی کے لیے یہ صعوبتیں اٹھانا کوئی نئی بات نہیں ہے. آصف علی زرداری کہ جنہیں کرپشن اور منی لانڈرنگ کے کیسز میں گرفتار کیا گیا ہے کو بھٹو خاندان کی قربانیوں سے جب نتھی کیاجانے لگا تو اس پر رد عمل دیتےہوئے بے نظیر بھٹوکی بھتیجی اور میر مرتضی بھٹو کی بیٹی فاطمہ بھٹو نے اپنے جذبات کا اظہار کرتےہوئے کہا کہ آصف علی زرداری کی گرفتاری کا مجھ پر بحیثیت بیٹی کچھ اثر نہیں ہے کیونکہ اس اقدام سے میرے پیارے والد کو واپس نہیں لایا جا سکتا کہ جنہیں میں نےاپنی آنکھوں کے سامنے مرتے دیکھا. دوسری ٹویٹ میں کہا کہ بحیثیت بیٹی کے مجھے خدا کے انصاف کا انتظار ہے اور میں چاہتی ہوں کہ اس کے بعد کوئی بیٹی بھی اس طرح درد اور تکلیف میں مبتلا نہ ہو کہ 23 سال قبل میرے والد کو میری آنکھوں کے سامنے ان کے قریبی ساتھیوں کے ہمراہ بے دردی سے گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا. خیال رہے کہ میرتضی بھٹو کو 23 سال قبل ان کے گھر کے قریب قتل کر دیا گیا تھا . قتل کا یہ واقعہ پولیس کی فائرنگ سے ہوا تھا .

واضح رہے کہ اس وقت بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی اور وہ اپنی حکومت میں اس قتل کے محرکات کو تلاش کرنے میں ناکام رہی قتل میں اس وقت کی وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری، سابق وزیر اعلیٰ عبداللہ شاہ، ڈی آئی جی شعیب سڈل، ایس ایس پی واجد درانی، اے ایس پی رائے طاہر، اے ایس پی شاہد حیات، پولیس افسر شبیر قائمخانی اور آغا طاہر ملزم قرار دیئے گئے تھے۔

واقعے کی چار مختلف ایف آئی آرز دائر کی گئی تھیں، جبکہ ایک سو دو گواہ تھے جن میں مرتضیُ بھٹو کی اہلیہ غنویٰ بھٹو اور بیٹی فاطمہ بھٹو بھی شامل تھیں۔ ابتدائی ایف آئی آرز میں آصف زرداری کا نام شامل نہیں تھا مگر بعد میں ایک گواہ اصغر علی کے اس بیان کے بعد ان کا نام شامل کیا گیا جس میں انہوں نے کہا کہ اس نے زخمی مرتضیُ بھٹو کوعاشق جتوئی سے یہ بات کرتے ہوئے سنا تھا ’ آصف علی زرداری اور وزیر اعلیٰ عبداللہ شاہ نے پولیس سے یہ کام کروالیا اور وہ جیت گئے ہم ہار گئے۔‘

یہ بھٹو خاندان کا المیہ ہے کہ بھائی کا قتل بہن کے دور حکومت میں ہوا مگر میں نے بے نظیر بھٹو کو کبھی اتنا بے بس نہیں دیکھا جتنا اس مقدمہ قتل میں وہ نظر آئیں.جبکہ سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے ایک ویڈیو پیغام میں بے نظیر بھٹو اور کے بھائی می رتضیٰ بھٹو کے قتل کا ذمہ دار آصف علی زرداری کو قرار دیا تھا.

پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ دیکھنا چاہیے کہ بے نظیر کے قتل کا فائدہ کس کو ہوا؟ کس نےبےنظیر کو ٹیلی فون کرکےگاڑی سے باہر نکلنے پر اکسایا؟انہوں نے کہا کہ بے نظیر کے قتل کا فائدہ ایک ہی آدمی آصف زرداری کو ہوا، بیت اللہ محسود کو سازش کرکے استعمال کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ خالد شہنشاہ کو بینظیر بھٹو کا سیکورٹی انچارج آصف زرداری نے بنایا۔ وہ قتل کے وقت بینظیر بھٹو کی گاڑی میں دوسرے لوگوں کے ساتھ موجود تھا پھر کچھ دن بعد کراچی میں خالد شہنشاہ کو بھی مشتبہ حالات میں مروادیا گیا۔

پرویز مشرف نے قتل کی سازش میں سابق افغان صدر کرزئی اور بیت اللہ محسود کو شامل قراردیا۔ پرویز مشرف نے بے نظیر کے بچوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ بلاول، آصفہ اور بختاور کو بتانا چاہتے ہیں کہ بے نظیر کا اصل قاتل کون ہے
واضح رہے کہ اس سلسلے میں فاطمہ بھٹو کا موقف لینے کے لے ان سے رابطہ کیا گیا لیکن جواب موصول نہیں ہوا

Comments are closed.