تاریخ کے صفحات میں کچھ نام ایسے رقم ہوتے ہیں جو محض افراد نہیں رہتے وہ استقامت قربانی اور حوصلے کے استعارے بن جاتے ہیں۔ بیگم نصرت بھٹو مرحومہ انہی میں سے ایک تھیں وہ عورت جس نے اپنی انکھوں کے سامنے اپنے شوہر کو تختہ دار تک جاتے دیکھا بیٹے کو لہو میں لت پت پایا۔ بیٹیوں کو جدوجہد کی بھٹی میں جلتے دیکھا مگر وہ ایک لمحے کے لیے کمزور نہ پڑیں۔ ان کا نام نصرت بھٹو تھا لیکن نصرت پاکستان بن گئیں۔ جب ظلم اپنی انتہا کو چھو رہا تھا جب ہر دروازے پر آہنی زنجیریں اور دیواروں پر سناٹے تھے تب وہ ایک ماں نہیں ایک تحریک بن گئیں۔ مارشل لاء کے اندھیرے دور میں جب بھٹو کا نام لینا جرم تھا تب نصرت بھٹو نے اس نام کو اپنے دل پر کندہ کر لیا۔ وہ جیلیں دیکھتی رہیں ان کی آنکھوں میں آنسو ضرور آئے مگر ان آنکھوں میں اور آنسوؤں میں شکست نہیں تھی عزم کا عکاس تھا۔ نصرت بھٹو نے نہ صرف اپنی فیملی بلکہ پوری قوم کے حوصلے کو سہارا دیا۔ میر مرتضٰی بھٹو کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا بینظیر بھٹو کو بار بار قید و جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑا۔ نصرت بھٹو ان سب دکھوں کو دبا کر قوم کو کہتی رہیں یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی سیاسی جدوجہد کا اصل زیور صبر ہے انتقام نہیں۔ نصرت بھٹو نے اپنے خاندان کو نہیں ایک نظریے کو زندہ رکھا وہ بھٹو خاندان کی وہ چٹان تھیں جن کے سائے میں تاریخ نے کئی طوفان دیکھے مگر ان کے ایمان کا چراغ کبھی بجھا نہیں۔

بھٹو خاندان کی اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہر صفحے پر نصرت بھٹو کی خاموش آنکھیں نظر آتی ہیں جن میں آنسو نہیں روشنی ہے۔ یہ وہ روشنی ہے جس نے بینظیر بھٹو کو جمہوریت کی علامت بنایا اور پیپلز پارٹی کو قربانی اور جدوجہد کا نشان۔ ملکی سیاسی تاریخ میں نصرت بھٹو کا نام ایک مجاہدہ اور ایک عہد کی علامت کے طور پر ہمیشہ روشن رہے گا۔ دوسری جانب خاتون بیگم کلثوم نواز مرحومہ تھیں جس نے اپنے خاوند نواز شریف کی رہائی کے لیے جدوجہد کی۔ اسلام آباد آبپارہ سے لاہور تک سفر میں ان کے ساتھ گاڑی میں خواجہ سعد رفیق، راولپنڈی کی ایک خاتون طاہرہ اورنگزیب تھیں بڑے بڑے نام نہاد ن لیگی رہنماؤں نے کلثوم نواز مرحومہ کو اکیلا چھوڑ دیا۔ مسلم لیگ ن کے انتہائی اہم عہدے پر فائز ایک شخص نے آبپارہ میں خود گرفتاری دے دی تاکہ بیگم کلثوم نواز کے ساتھ سفر نہ کرنا پڑے۔ نواز شریف سمیت اعلٰی قیادت جیلوں میں بند تھی بیگم کلثوم نواز کے ساتھ جو کچھ ہوا ایک عالم گواہ ہے۔ نواز شریف کی بیٹی مریم نواز نے جدوجہد کو جاری رکھا جیلیں بھی کاٹیں اور اپنے اوپر بنائے گئے مقدمات کا سامنا کیا اور اپنی جماعت کو زندہ رکھا۔ ماضی قریب کے اکابرین نے جمہوریت، آزادی اظہار اور حقوق انسانی کے لیے جدوجہد کی۔ بیگم نصرت بھٹو جیسے اور بیگم کلثوم نواز جیسے درخشاں ستاروں سے ہمارا دامن بھرا ہوا ہے خالی نہیں۔

Shares: