لاہور(خالدمحمودخالد) بھارتی ریاست بہار میں ہونے والے انتخابات کے پہلے مرحلے میں ووٹنگ 6 نومبر کو ہوگی۔جمعرات کو شروع ہونے والے انتخابات میں دو بڑے پولیٹیکل بلاکس بھرپور طریقے سے حصہ لے رہے ہیں جن میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی سربراہی میں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس اور راشٹریہ جنتا دل اور انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت میں گرینڈ الائنس شامل ہیں۔ انتخابی مقابلہ 243 نشستوں پر ہوگا۔ بہار کے انتخابی میدان میں اس بار بھی وہی پرانی کہانی دہرائی جا رہی ہے۔ اپوزیش کی طرف سے عوامی مسائل، مہنگائی، روزگار اور تعلیم کے سوالات اٹھائے جارہے ہیں جب کہ حکومت کی طرف سے ماضی کی طرح قوم خطرے میں ہے، پاکستان سازش کر رہا ہے اور مودی ہی ملک کو بچا سکتے ہیں، کے نعرے لگائے جارہے ہیں۔ بھارتی اپوزیشن جماعت نیشنل کانگریس کے اہم لیڈر راہول گاندھی نے گزشتہ روز ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ وزیرِاعظم نریندر مودی کی سیاسی حکمتِ عملی ہمیشہ سے ایک ہی نکتے کے گرد گھومتی آئی ہے۔ جب عوامی غصہ بڑھے، اقتصادی دباؤ محسوس ہو، یا پارٹی کے اندر اختلافات ابھرنے لگیں تو پاکستان کارڈ سامنے لے آؤ،  یہی کارڈ آج بہار میں دوبارہ کھیلا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی نے 2014 میں ملک کو ترقی، روزگار اور شفاف حکومت کا خواب دکھایا تھا لیکن آج گیارہ سال بعد وہی وزیرِاعظم اپنی تقریروں میں زیادہ تر پاکستان، دہشت گردی اور قومی سلامتی پر بات کرتا نظر آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی اس حکمت عملی کا مقصد عوامی گفتگو کو مسائل سے ہٹا کر خطرے کی طرف موڑ دینا ہے۔ مودی حکومت کے خلاف سب سے بڑا غصہ روزمرہ زندگی کے دباؤ سے جنم لے رہا ہے۔ مہنگائی نے عام شہری کی کمر توڑ دی ہے، اور نوجوانوں کے پاس روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ وہ حقیقت ہے جس پر مودی حکومت کھل کر بات نہیں کرنا چاہتی کیونکہ اس کے پاس عملی نتائج دکھانے کیلئے کچھ زیادہ نہیں۔ اسی لیے انتخابی جلسوں میں معیشت کی بات کم، پاکستان کی بات زیادہ کی جا رہی ہے۔ مودی کے بہار میں حالیہ بیانات جن میں اپوزیشن پر پاکستان کے ایٹمی خوف سے ڈرنے کا الزام لگایا گیا دراصل اسی پرانی سیاسی تکنیک کی تازہ قسط ہیں۔ یہ ایک جذباتی نکتہ ہے جو ووٹروں کے قومی احساس کو جگاتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا عوام اب بھی ان نعروں سے متاثر ہوتے ہیں، یا ان کی ترجیحات بدل چکی ہیں۔ راہل گاندھی کا کہنا ہے کہ اس بار زمینی فضا الگ ہے۔ اب عوام پاکستان کی بجائے پٹرول کی قیمت اور نوکری کی تلاش پر بات کر رہے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر تیجسوی یادو کا کہنا ہے کہ مودی جب سوالوں میں گھرتے ہیں، تو دشمن ملک کی بات کرنے لگتے ہیں۔ مودی اب ایک ایسے مقام پر ہیں جہاں ان کی کامیابی کا بوجھ خود ان کے کندھوں پر ہے۔ اگر وہ ترقی کے وعدوں کی طرف واپس نہ لوٹے تو ان کی سیاست ہمیشہ کے لیے خطرے کے بیانیے پر منحصر ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کارڈ نے ماضی میں بی جے پی کو انتخابی فائدہ ضرور دیا۔ مگر موجودہ بھارت میں ووٹر اب کہیں زیادہ باشعور ہے۔ وہ جانتا ہے کہ قوم پرستی کے نعروں سے پیٹ نہیں بھرتا اور دشمن کے نام پر روزگار نہیں ملتا۔ مودی کے پاس اب دو راستے ہیں۔ یا تو وہ ترقی کے اپنے وعدے دوبارہ زندہ کریں یا پھر یہ تسلیم کر لیں کہ ان کی سیاست اب دشمن کے خوف پر چلتی ہے عوامی امیدوں پر نہیں۔ واضح رہے کہ بہار سمیت پورے ملک میں مودی حکومت کو جن چیلنجز کا سامنا ہے ان میں سب سے نمایاں مہنگائی، بے روزگاری اور کسانوں کی ناراضی سرفہرست ہیں۔ روزمرہ اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافے نے عام شہری کو متاثر کیا ہے جبکہ نوجوان طبقہ روزگار کے مواقع نہ ملنے سے مایوس ہے۔ کاروباری طبقے میں جی ایس ٹی اور ٹیکس اصلاحات پر ناراضی برقرار ہے۔ جس کی وجہ سے انتخابی نتائج کے بارے میں فوری طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

Shares: