اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے ہونے والے حالیہ فیصلوں پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ صورتحال آئینی ترامیم میں مشکلات کی نشاندہی کرتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگر وہ ترامیم کی قیادت کرتے تو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو بھی شامل کرتے۔ بلاول نے یہ بات کورٹ رپورٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہی، جہاں انہوں نے موجودہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی بنیاد پر پارلیمنٹ کے قانون سازی کے حق کی تصدیق کی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے ترامیم کا خیال پہلے ہی عدلیہ کے ساتھ شیئر کر دیا، جس کی وجہ سے یہ نشستیں پیپلز پارٹی سے چھین لی گئیں۔ بلاول نے اشارہ دیا کہ 25 اکتوبر کے بعد آئینی ترامیم میں مزید مشکلات پیش آ سکتی ہیں اور شاید اسی لیے ان ترامیم کو خفیہ رکھا گیا ہے۔
جب صحافی نے پوچھا کہ کیا بانی پی ٹی آئی کا ملٹری ٹرائل ہونا چاہیے تو بلاول نے جواب دیا کہ اگر ملٹری ٹرائل کرنا ہے تو ثبوت پیش کرنے ہوں گے، اور معافی کا اختیار ان کے پاس موجود ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کو عدلیہ میں خامیاں 2022 کے بعد نظر آئیں، اور 90 کی دہائی میں ان کی جماعت وکیل کرتی تھی جبکہ مسلم لیگ (ن) ججز کرتی تھی۔ بلاول نے نشاندہی کی کہ آئینی عدالت کا قیام میثاق جمہوریت کا حصہ ہے اور وہ صوبائی سطح پر بھی آئینی عدالتیں چاہتے ہیں۔بلاول بھٹو نے کراچی بدامنی کیس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ یہ کیس برسوں سے زیر التوا ہے، اور یہ سوال اٹھایا کہ کیا بدامنی صرف کراچی میں ہے یا خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی موجود ہے؟ انہوں نے عدالت کی جانب سے سندھ کے بلدیاتی نظام میں تبدیلی کو تنقید کا نشانہ بنایا، اور کہا کہ اگر کوئی جج یہ کہتا ہے کہ 50 کی دہائی والا کراچی چاہئے تو یہ صورتحال افسوسناک ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ اختیارات کا غلط استعمال کرے تو وہ بول سکتے ہیں، لیکن عدلیہ کے اختیارات کے استعمال پر بات کرنے پر توہین لگ جاتی ہے۔ بلاول بھٹو نے اس بات پر بھی زور دیا کہ آئینی عدالت کے سربراہ، چاہے وہ فائز عیسی ہوں یا جسٹس منصور، انہیں اختیارات کے غلط استعمال سے دور رہنا چاہیے۔آخر میں، بلاول نے سیاستدانوں سے اپیل کی کہ وہ سیاست کے دائرے میں واپس آئیں اور "کون بنے گا وزیر اعظم” جیسے کھیلوں کو ختم کریں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ پولرائزیشن اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اب کہا جاتا ہے کہ جو خان کے ساتھ ہے، بس وہی ٹھیک ہے۔یہ بیانات بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب ملک میں سیاسی عدم استحکام اور آئینی مسائل کا سامنا ہے۔ ان کی طرف سے پیش کردہ نکات آئندہ کی سیاست کے لیے اہم ہیں، اور ان کا مقصد موجودہ حالات میں سیاسی جماعتوں کے درمیان بہتر ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔








