امریکہ کے دورے پر آئے اعلیٰ سطحی پاکستانی پارلیمانی وفد کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نےعالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو انٹرویو دیا ہے، اے ایف پی کے مطابق حالیہ پاک بھارت بحران کے بعد دونوں ملکوں کی جانب سے اعلی قانون سازوں کو امریکہ روانہ کیا گیا ہے تاکہ وہ اپنے حق میں رائے ہموار کر سکیں، امریکی صدر ٹرمپ نے حالیہ بحران میں سفارت کاری کے حوالے سے متحرک کردارادا کرنے میں دلچسپی دکھائی ہے، واشنگٹن نے جوہری ہتھیاروں سے لیس فریقین کے درمیان چار دن کی لڑائی کے بعد جنگ بندی میں کلیدی ثالث کا کردار ادا کیا۔دونوں ملکوں کے وفود کی قیادت ان بااثر سیاستدانوں کو سونپی گئی ہے جو مغربی سامعین سے آسانی کے ساتھ بات چیت کرنے کی صلاحیت سے جانے جاتے ہیں ،پاکستان نے ٹرمپ انتظامیہ کے فعال کردار کو قبول کیا ہے،بھارت ایک طویل عرصے سے کشمیر کے فلیش پوائنٹ ہمالیائی علاقے پر بیرونی ثالثی سے انکار ی ہے۔
بلاول زرداری کا انٹرویو میں کہنا تھا کہ جس طرح امریکہ اور صدر ٹرمپ نے اس جنگ بندی کے حوالے سے حوصلہ افزا کردار ادا کیا اسی طرح انہیں دونوں فریقین کو جامع مذاکرات کی میز پر لانے میں بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے،مذاکرات کے حوالے سے ہندوستانی حکومت کی ہچکچاہٹ معنی خیز ہے،جنگ بندی جیسے مشکل مرحلے کے حصول پر امریکی قیادت تعریف کی مستحق ہے،صدر ٹرمپ نے بار بار جوہری جنگ کو روکنے کی بات کی ہے اور کہا ہے کہ امریکہ نے ایک غیر جانبدار مقام پر دونوں فریقوں کے درمیان مذاکرات کی سہولت کاری کا کہا ہے،صدر ٹرمپ کے دور میں پاک امریکہ تعلقات میں بہتری کی روش خوش آئند ہے۔پاکستان بھارت کے ساتھ دہشت گردی پر بات کرنے کے لیے تیار ہے لیکن کشمیر کو بنیادی تنازعے کے طور پر میز پر لانے کی ضرورت ہے،*بھارت جنوبی ایشیا میں ایک خطرناک مثال قائم کر رہا ہے جس کے تحت کوئی بھی ملک دہشت گردانہ حملہ ہونے کی صورت میں جنگ چھیڑ دے،1.7 ارب لوگوں اور ہماری دو عظیم قوموں کی تقدیر کو بے نام، بے چہرہ، غیر ریاستی اداکاروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا اور نہ ہی اسے اس نیو نارمل کی صورتحال سے دوچار کیا جاسکتا ہے جو بھارت مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے