بل: کفن اور زنجیر پہن کر بھی دیا جاتا ہے
تحریر: حبیب خان باغی ٹی وی نامہ نگار اوچ شریف
یہ کوئی کہانی نہیں ہے بلکہ اس ملک کے لاکھوں گھروں کی حقیقت ہے جہاں بجلی کا بل اب صرف ایک کاغذ نہیں بلکہ ایک کفن بن چکا ہے جو ہر ماہ غریب کے گلے میں پھندے کی طرح لٹکتا ہے۔ وزیر توانائی اویس لغاری اپنی پریس کانفرنسوں اور سوشل میڈیا پوسٹوں میں "بجلی سستی ہو گئی” کی رٹ لگائے ہوئے ہیں، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ صارفین کے بل ہر ماہ نئے ریکارڈ بنا رہے ہیں۔ ایک گھر جہاں صرف دو پنکھے، ایک بلب اور چند گھنٹوں کا واٹر پمپ چلتا ہو، وہاں 10 سے 20 ہزار روپے کے بل آ رہے ہیں۔ یہ کوئی رعایت نہیں، یہ معاشی قتل ہے، جو ایک ظالمانہ سلیب سسٹم کے ذریعے کیا جا رہا ہے جہاں 199 یونٹ تک رعایت ملتی ہے، لیکن 200 یونٹ پر تمام رعایتیں ختم ہو جاتی ہیں اور صارف پر 500 فیصد زیادہ نرخ لگ جاتے ہیں۔ ایک یونٹ کا یہ فرق ہزاروں روپے کے نقصان میں بدل جاتا ہے، گویا غریب کو سزا دی جا رہی ہو کہ اس نے بجلی استعمال کرنے کی جرات کیسے کی۔

اس سے بھی بڑھ کر، ڈیٹیکشن بلز کا عذاب ہے، جو بغیر کسی ثبوت یا تفتیش کے صارف کو "چور” قرار دے کر لاکھوں روپے کے بل تھوپ دیتا ہے۔ اگر صارف اپنی بے گناہی ثابت کرنا چاہے تو اسے تھانوں، عدالتوں اور نیپرا کے چکر لگانے پڑتے ہیں، لیکن نتیجہ وہی ذلت اور وہی بل ہوتا ہے۔ ریاستی بجلی کمپنیوں نے صارفین کی زندگی جہنم بنا دی ہے۔ ایک گھر میں چاہے کتنی ہی فیملیاں رہتی ہوں، دوسرا میٹر لگانے پر پابندی ہے، اور اگر میٹر خراب ہو جائے تو نیا میٹر لگوانے کے لیے صارف کو دفتروں کے چکر لگوانے پڑتے ہیں، جہاں اسے کہا جاتا ہے کہ پہلے تھانے جا کر اپنی بے گناہی ثابت کرو۔ یہ کون سا انصاف ہے جو شہری کو بغیر جرم کے مجرم بناتا ہے؟

عید کے موقع پر کئی شہروں سے دل دہلا دینے والی خبریں آئیں، جہاں ایک باپ نے بجلی کا بل دیکھ کر زہر کھا لیا اور ایک ماں نے اپنی بیٹی کے جہیز کے پیسے بل ادا کرنے میں خرچ کر دیے۔ یہ سب اس "ریلیف” کے دعوؤں کے باوجود ہو رہا ہے جو اویس لغاری ہر روز دہراتے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے نہ اس بحران پر قوم سے خطاب کیا، نہ کسی وزیر کو ہٹایا، نہ ہی ڈیٹیکشن بلز کی تحقیقات کا حکم دیا۔ یہ ایک منظم معاشی استحصال ہے، جہاں صارف کو پہلے مجرم قرار دیا جاتا ہے اور پھر اس سے جرمانہ وصول کیا جاتا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ میں شہریوں نے ان ناجائز بلوں اور ڈیٹیکشن چارجز کو آئین کے آرٹیکل 9 یعنی زندگی کے حق کے خلاف قرار دیا ہے، اور نیپرا نے بھی اعتراف کیا کہ کئی کیسز میں کمپنیوں نے بغیر جائز طریقہ کار کے ڈیٹیکشن بلز عائد کیے۔ لیکن اس کے باوجود نہ کوئی سی ای او معطل ہوا، نہ کوئی پالیسی بدلی، نہ ہی کوئی وزیر جواب دہ ٹھہرا۔

یہ قوم عجیب ہے۔ وہ سسکتی ہے، روتی ہے، چیختی ہے، لیکن پھر بھی ووٹ ڈالنے قطاروں میں کھڑی ہوتی ہے۔ لیکن اب یہ زنجیر ٹوٹنے کے قریب ہے۔ دیہاتوں سے خواتین بجلی کے بل لے کر تھانوں کے باہر احتجاج کر رہی ہیں، بوڑھے بزرگ بل اور دوائیاں ہاتھ میں لے کر میڈیا کے سامنے اپنی داستان سنا رہے ہیں۔ یہ زنجیر اب خاموشی سے رقص نہیں کرنا چاہتی، یہ ٹوٹنا چاہتی ہے۔ اویس لغاری صاحب! اگر بجلی واقعی سستی ہوئی ہے تو بل ہر ماہ مہنگے کیوں آ رہے ہیں؟ اگر رعایت دی جا رہی ہے تو ڈیٹیکشن بلز کیوں بھیجے جا رہے ہیں؟ اگر عوام کو ریلیف مل رہا ہے تو خودکشیاں کیوں ہو رہی ہیں؟ آپ کی کرسی سے اتر کر کسی غریب کے گھر کا بل ہاتھ میں لیں، اس کی کہانی سنیں، شاید آپ کا ضمیر جاگ جائے۔ ورنہ تاریخ لکھے گی کہ 2025 میں ایک وزیر توانائی تھا جو عوام کا خون نچوڑتا رہا اور مسکرا کر کہتا رہا کہ ہم نے تو ریلیف دے دیا۔

یہ صرف بجلی کا بل نہیں، یہ اس قوم کی بے بسی کی داستان ہے۔ یہ زنجیر بجلی کی ہے، گیس کی ہے، آٹے کی ہے، دوائی کی ہے۔ لیکن اب یہ قوم خاموش نہیں رہے گی۔ یہ زنجیر اب ٹوٹے گی کیونکہ بل اب کفن اور زنجیر پہن کر بھی دیا جاتا ہے، لیکن اب یہ قوم اس کفن کو اتار پھینکنے کے لیے تیار ہے۔ حکومت کے ایوانوں میں بیٹھے وزراء سے گزارش ہے کہ عوام کی آواز سنیں، ان کے بل دیکھیں، ان کی چیخیں سنیں۔ ورنہ یہ زنجیر آپ کے ایوانوں تک پہنچے گی اور پھر نہ کوئی رعایت کام آئے گی، نہ کوئی پریس کانفرنس۔

Shares: