یہ ملک شاید ترقی کے لیے نہیں، ہر روز ایک نیا مافیا پیدا کرنے کے لیے بنا ہے۔ کبھی آٹے کا بحران، کبھی چینی کا، کبھی پٹرول کی مصنوعی قلت، اور اب باری ہے غریب کے حق پر ڈاکا ڈالنے والوں کی وہ لوگ جو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) کے نام پر والٹ اکاؤنٹ کھولنے کیلئے فی بندہ 1000 روپے مانگ رہے ہیں۔
یہ دھندا اس تیزی سے پھیل رہا ہے کہ دیہات، قصبوں اور چھوٹے شہروں میں جعلی ریٹ لسٹیں جعلی دفتر، جعلی اہلکار، اور جعلی فارم تک گردش کرنے لگے ہیں۔
یہ کالم اُن ہی غریبوں کی آواز ہے جو اپنے بچوں کے لیے سہارے تلاش کرتے ہیں، مگر ان کے نصیب میں سہارا نہیں، استحصال لکھ دیا گیا ہے۔یہ پروگرام غریب عوام کے لیے بنایا گیا تھا، ان خواتین کے لیے جن کے گھروں میں چولہا جلا رہتا ہے یا نہیں یہ حکومت کی طرف سے ایک مستحکم مدد ہے۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ جیسے ہی کسی پروگرام کا نام مشہور ہو جائے، ہمارا معاشرہ اسے ثواب کی جگہ کمائی سمجھ لیتا ہے۔اب صورتحال یہ ہے کہ جعل ساز گروہ، مقامی دکاندار، ایجنٹس اور نام نہاد “رجسٹریشن سنٹر” لوگوں سے کہتے ہیں “بینظیر انکم سپورٹ والٹ کھل رہا ہے 1000 روپے فیس دو، فائدہ اٹھاؤ۔حالانکہ حقیقت میں آن لائن والٹ ہو، موبائل اکاؤنٹ ہو، یا ریگولر رجسٹریشناس کی بروکری، اس کی فیس، اس کی رشوت صفر روپے ہے۔مگر جب علم کم ہو، اور ضرورت زیادہ، تو مافیا کو پنپنے میں دیر نہیں لگتی۔
غریب عوام: امید کے نام پر دھوکہ
دیہات کی خواتین جنہوں نے کبھی موبائل استعمال تک صحیح سے نہیں کیا، وہ جب سنتی ہیں کہ ’’1000 روپے دو، نام اپڈیٹ ہو جائے گا‘‘… تو کسی نہ کسی طرح پیسے جوڑ کر دے دیتی ہیں، اس امید کے ساتھ کہ شاید اگلے ماہ 10-12 ہزار روپے ان کے ہاتھ لگ جائیں۔یعنی ایک طرف غربت، دوسری طرف اندیشہ کہ اگر 1000 روپے نہ دیے تو شاید حکومت کی امداد ملنا ہی بند نہ ہو جائے۔یہ خوف ہی مافیا کی اصل کمائی ہے۔
جعلی رجسٹریشن سنٹر۔ ایک نیا کاروباری ماڈل
کئی شہروں میں لوگوں نے کرسی، ٹیبل، ایک بینر اور چند موبائل فون لگا کر جعلی BISP مراکز بنا لیے ہیں۔
یہ لوگ نہ صرف پیسے لیتے ہیں، بلکہ غریب عورتوں کا ڈیٹا بھی چوری کرتے ہیں، جس کا آگے جا کر غلط استعمال خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔شناختی معلومات کی چوری ایک بڑا جرم ہے، مگر یہاں اسے کاروبار بنا لیا گیا ہے۔
حکومت نے کئی بار وضاحت کی کہ رجسٹریشن مفت ہے،کوئی والٹ اکاؤنٹ فیس کے بغیر بنتا ہے،BISP کا عملہ گھر گھر جا کر پیسہ نہیں لیتا،لیکن زمین پر کیا ہو رہا ہے؟کسی ضلع میں کوئی پکڑا نہیں جاتا، اور اگر پکڑا بھی جائے تو اگلے دن پھر یہی کاروبار شروع ہو جاتا ہے۔غریب کی جیب تو خالی ہوتی ہے،مگر حکومت کی عملداری بھی شاید خالی ہے۔
معاشرہ کیوں خاموش؟
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ مہنگائی، بیروزگاری، اور پریشانی نے عوام کو اتنا مصروف کر رکھا ہے کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کو ظلم سمجھتے ہی نہیں۔لوگ کہتے ہیں “چلو 1000 ہی تو ہیں، اگر نام لگ گیا تو کیا مسئلہ؟”یہ سوچ ہی مافیا کی طاقت ہے۔یہ عوامی سطح پر آگاہی کا وقت ہے، ورنہ یہ دھندا بڑھ کر ہر گھر تک پہنچ جائے گا۔ یاد رکھیں، بینظیر انکم سپورٹ کی رجسٹریشن مفت ہے۔کوئی فیس، کوئی چارج، کوئی ٹوکن کچھ نہیں۔ کوئی والٹ اکاؤنٹ، موبائل اکاؤنٹ، یا ATM سسٹم 1000 روپے نہیں لیتا۔ جعلی ایجنٹوں سے بچیں، صرف سرکاری مراکز پر جائیں۔ اپنا ڈیٹا کسی کے ساتھ شیئر نہ کریں۔
شکایت کریں خاموشی جرم کو مضبوط کرتی ہے،اسٹیشنری دکانوں پر مافیا” کیوں پنپتا ہے؟اکثر دکاندار یہ سوچ کر یہ دھندا شروع کرتے ہیں کہ“ہم تو خدمت کر رہے ہیں، تھوڑے پیسے لے رہے ہیں تو کیا ہوا؟”مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہ خدمت نہیں، استحصال کر رہے ہوتے ہیں۔اسی طرح کے غیر ذمہ دار رویوں نے ہر شعبے میں بدنیتی کو جنم دیا ہے۔یہ سچ ہے کہ ایسے فراڈ صرف کمزور معاشروں میں پنپتے ہیں، جہاں قانون سست ہو،اداروں کی آنکھ پر پٹی بندھی ہو،میڈیا سنجیدہ مسائل چھوڑ کر سیاست کے پیچھے لگا رہے،پولیس کو رشوت زیادہ اور ذمہ داری کم دکھائی دے،اگر حکومت بروقت کارروائیاں کرے، تو ایک ہفتے میں یہ پورا دھندا ختم ہو سکتا ہے۔ لیکن جب سب کی نظریں دوسری طرف ہوں، تو مافیا کو پھلنے پھولنے میں دیر نہیں لگتی۔
یہ کالم صرف الفاظ نہیں ایک چیخ ہے۔ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ کیا ہم اس معاشرے کو ایسی سمت میں جانے دیں گے جہاں غریب کی بے بسی ہی اس کا جرم بن جائے؟غریبوں کو امداد نہیں چاہیے،انہیں احترام چاہیے، عزت چاہیے اور ان کا حق لوٹنے والوں سے حفاظت چاہیے۔بینظیر انکم سپورٹ کے نام پر ہو رہا یہ لوٹ مار صرف ایک دھندا نہیں ایک بدنیتی کی علامت ہے۔اور جب تک ہم اجتماعی طور پر اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے، یہ سلسلہ رکنے والا نہیں۔








