بی ایل اے،بی ایل ایف،بلوچستان کی ترقی کی دشمن.تحریر: جان محمد رمضان
دہشت گرد تنظیمیں، جیسے بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف)، نہ صرف پاکستان کے امن و سکون کے لیے ایک سنگین خطرہ ہیں، بلکہ یہ تنظیمیں بلوچستان کی ترقی کی دشمن بھی ہیں۔ ان تنظیموں کی دہشت گردانہ سرگرمیاں اور ان کے حملوں نے نہ صرف بلوچستان کے عوام کو شدید مشکلات میں مبتلا کیا ہے بلکہ پورے پاکستان میں خوف و ہراس پھیلایا ہے۔ ان تنظیموں کے وحشیانہ حملوں کی حقیقت اب روز روشن کی طرح واضح ہو چکی ہے۔
9 نومبر 2024ء کو کوئٹہ میں ہونے والے حملے میں 2 معصوم شہریوں کی شہادت نے ایک بار پھر بی ایل اے اور بی ایل ایف کے وحشیانہ عزائم کو بے نقاب کیا۔ ان شہریوں کے بھائیوں کی آہ و پکار اور دل دہلا دینے والے حقائق نے بلوچستان میں جاری دہشت گردی کے اسباب کو واضح کیا۔ ان حملوں کی حقیقت نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کے عوام کے سامنے آ چکی ہے کہ یہ دہشت گرد تنظیمیں صرف انسانیت کے دشمن ہیں۔
29 ستمبر 2023ء کو مستونگ میں ایک مسجد کے قریب ہونے والے دھماکے میں 50 سے زائد افراد شہید ہوئے۔ اس دھماکے میں شہید ہونے والی ایک کمسن بچی کا والد اپنی بیٹی کی تصویر ہاتھ میں لیے غم سے نڈھال تھا۔ بی ایل اے نے اس حملے کی ذمے داری خود قبول کی، جو ان کے دہشت گردانہ عزائم کو مزید واضح کرتا ہے۔ اس حملے نے یہ ثابت کر دیا کہ یہ تنظیمیں انسانیت کے خلاف ہیں اور اپنے سیاسی مقاصد کے لیے بے گناہ انسانوں کو نشانہ بناتی ہیں۔
2024ء میں 33 بلوچوں کی شہادت،گزشتہ برس بھی بی ایل اے اور بی ایل ایف کے دہشت گردوں نے 33 معصوم بلوچوں کی زندگیوں کا خاتمہ کیا۔ بلوچ عوام، طلبہ اور روتی ہوئی مائیں ان دہشت گرد تنظیموں کی درندگی کی شدید مذمت کر رہی ہیں۔ ان واقعات نے بلوچستان کے عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ ان تنظیموں کی حقیقت کیا ہے اور وہ کس مقصد کے لیے یہ جانی نقصان کروا رہے ہیں۔
4 جنوری 2025ء کو تربت میں ہونے والے بس حملے میں ایک نوجوان کی شہادت ہوئی۔ اس حملے کی ذمے داری بھی بی ایل اے نے قبول کی۔ اس نوجوان کی والدہ نے اپنی آہ و پکار کے ذریعے یہ سوال اٹھایا کہ ’’بی ایل اے کے دہشت گردوں نے میرے بیٹے کو بے دردی سے کیوں مارا؟‘‘، اس سوال نے اس بات کو مزید تقویت دی کہ یہ دہشت گرد تنظیمیں بے گناہ انسانوں کی زندگیوں سے کھیل رہی ہیں۔
بی ایل اے کے دہشت گرد بشیر نے حال ہی میں گرفتاری کے بعد اپنی تنظیم کے بارے میں انکشافات کیے ہیں۔ اس نے بی ایل اے کی حقیقت کو بے نقاب کرتے ہوئے بتایا کہ اس تنظیم کا مقصد صرف تباہی اور خونریزی ہے۔ بشیر کی گواہی نے ان دہشت گرد تنظیموں کے خلاف عوامی شعور کو مزید بیدار کیا ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ بی ایل اے اور بی ایل ایف کی کارروائیاں کسی بھی طور پر بلوچ عوام کی خدمت نہیں کر رہیں، بلکہ یہ ان کے خون سے کھیل کر اپنے مقاصد پورے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی لاہور کے طالب علم، طلعت عزیز، کو بھی بی ایل اے کے دہشت گردوں نے جھانسا دے کر پہاڑوں میں لے گئے۔ ان دہشت گردوں نے اس معصوم طالب علم کی زندگی کو خطرے میں ڈالا اور اس کا اغوا کیا۔ اس واقعے نے اس بات کو مزید اجاگر کیا کہ یہ تنظیمیں صرف بلوچوں کے حقوق کی بات نہیں کر رہیں، بلکہ ان کا مقصد عوامی تعلیم اور ترقی کو بھی روکنا ہے۔
11 جنوری 2025ء کو بی ایل اے نے تمپ میں 2 بے گناہ شہریوں کو بے دردی سے قتل کیا۔ اس حملے میں 15 سالہ معراج وہاب کی موت نے پورے علاقے کو ہلا کر رکھ دیا۔ معراج کے والدین نے اس قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور بی ایل اے کے ’’ریاستی ڈیتھ سکواڈ‘‘ جیسے جھوٹے الزامات کی تردید کی۔ اس واقعے نے یہ ثابت کر دیا کہ ان دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیاں بے بنیاد الزامات اور جھوٹ پر مبنی ہیں۔
ان تمام واقعات کے بعد بلوچستان کے عوام کا عزم مزید مضبوط ہوا ہے کہ وہ ان دہشت گرد تنظیموں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ بلوچ عوام اب خاموش نہیں رہیں گے اور اپنی سرزمین کو دہشت گردوں سے آزاد کرنے کے لیے جدوجہد کریں گے۔ سکیورٹی فورسز بھی اب پوری قوت سے ان دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں اور انہیں انجام تک پہنچائیں گی۔دہشت گرد تنظیمیں بی ایل اے اور بی ایل ایف نے جس طرح بلوچستان اور پاکستان کے دیگر حصوں میں معصوم عوام کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا ہے، اس کی حقیقت اب پوری دنیا کے سامنے آ چکی ہے۔ ان دہشت گردوں کے وحشیانہ حملے بلوچ عوام کی ترقی اور خوشحالی کے دشمن ہیں، اور ان کی بربریت کا جواب دیا جائے گا۔ سکیورٹی فورسز اور عوام کا عزم مضبوط ہے، اور وہ ان دہشت گردوں کے خلاف اپنا حق چھیننے کے لیے لڑیں گے۔آخر میں، یہ ضروری ہے کہ ہم سب مل کر ان دہشت گرد تنظیموں کی سازشوں کا مقابلہ کریں اور ایک پرامن اور خوشحال پاکستان کی تعمیر کے لیے متحد ہو جائیں۔