مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ، کشمیریوں کا یوم سیاہ ہوگا، تاریخ‌ بدلیں‌ ورنہ تاریخ‌ معاف نہیں کرے گی، خصوصی رپورٹ

اسلام آباد (رضی طاہر سے) 27 اکتوبر 1947ء کا دن کشمیر کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن ہے جب بھارت کے نوخیز برہمنی سامراج نے برصغیر کی تقسیم کے مسلمہ اصولوں کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے سازش اور منافقت سے کام لیکر غالب مسلم اکثریت کی ریاست جموں و کشمیر پر غاصبانہ تسلط اور قبضہ جمالیا تھا، اس دن کو دنیا بھر کے کشمیری اور پاکستانی عوام یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں، اسی دن جمعیت علمائے اسلام ف کا مذہب کارڈ کھیلتے ہوئے آزادی مارچ کا اعلان تاریخی غلطی ہے، مولانا تاریخ‌ بدلیں‌ ورنہ تاریخ معاف نہیں کرے گی.

برصغیر کی تقسیم اس اصول کی بنیاد پر ہوئی تھی کہ مسلم اکثریت کے علاقے پاکستان کے ساتھ شامل ہوں گے اور غیر مسلم اکثریت کے علاقے بھارت کیساتھ، جبکہ ریاستوں کے بارے میں یہ اصول طے پایا تھا کہ انکے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہوئے انکی غالب اکثریت کی ریاست جموں و کشمیر کو جو اپنے جغرافیائی محل و قوع کے لحاظ سے پاکستان کیلئے شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے، بہر صورت پاکستان میں شامل ہونا چاہئے تھا لیکن بھارتی سامراج نے چونکہ پاکستان کے قیام کو دل سے قبول ہی نہیں کیا تھا، 27 اکتوبر 1947 کو بھارت نے مقبوضہ ریاست جموں کشمیر پر ناجائز قبضہ جمالیا.

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی مولانا فضل الرحمن کو تاریخ‌ بدلنے کا مشورہ دیا، انہوں‌ نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے ہیں وہ باتوں کو سمجھتے ہیں، احتجاج ان کا جمہوری حق ہے اور وہ فیصلوں میں آزاد ہیں لیکن میری ان سے گزارش ہے کہ 27 اکتوبر کا دن احتجاج کے لیے مناسب نہیں، اس پر نظرثانی فرمائیں۔

آج مقبوضہ کشمیر میں اسلام اور آزادی کی علمبردار قوتیں اپنی آزادی اور حق خودار ادیت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی بقاء و سالمیت اور تکمیل پاکستان کی جنگ بھی لڑ رہی ہیں۔مجاہدین جموں و کشمیر پاکستان کی شہ رگ کو بھارت سے چھڑانے کیلئے اپنی جان و مال اور عزت و آبرو قربان کر رہے ہیں۔ یہ جنگ کشمیریوں کی نہیں بلکہ پاکستان اور عالم اسلام کے دفاع اور سالمیت کی جنگ ہے۔ ایسے وقت میں مولانا کی مذہب کارڈ کھیلتے ہوئے موجودہ حکومت کے خلاف مہم کو تاریخ میں اچھے الفاظ میں یاد نہیں کیا جائے گا.

Comments are closed.