اندھا اعتقاد — نعمان سلطان

0
45

دنیا میں بےشمار افراد توہم پرستی کے شکار ہیں لیکن پاکستان میں تو آخیر ہی ہے گزشتہ دنوں فیصل آباد میں ایک پیر صاحب کی خوشنودی کے لئے ایک محفل کا انعقاد کیا گیا اس میں پیر صاحب کو لاثانی کہا گیا جس پر فیصل آباد بار کے وائس پریذیڈنٹ صاحب نے محفل میں سرعام پیر صاحب کے مریدوں کو اس عمل سے روکا جس کے ردعمل میں پیر صاحب کے مریدوں نے ان پر شدید تشدد کیا۔

کون حق پر ہے یہ آنے والے دنوں میں معلوم ہو جائے گا بظاہر رائے عامہ پیر صاحب کے خلاف ہے، پیر صاحب کا واقعہ سن کر ایک پرانے وقتوں میں سنا واقعہ یاد آگیا جس میں مرید نے ہر حال میں اپنے پیر کا ہی شملہ اونچا رکھنا تھا اور اتنے عرصے بعد بھی مریدوں کا وہی حال ہے بہرحال پرانا واقعہ بیان کرتا ہوں تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ ہماری نفسیات بالکل نہیں بدلی ۔

ایک پیر کے مرید صاحب سعودی عرب بسلسلہ روز گار جانا چاہتے تھے لیکن وہاں جانے کے اسباب نہیں بن رہے تھے، ایک دن اپنے مرشد کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ حضرت میں سعودی عرب جانا چاہتا ہوں لیکن کوئی نہ کوئی رکاوٹ آ جاتی ہے براہ مہربانی مجھ پر نظر کرم کریں مرشد نے حسب عادت ایک تعویز مرید کو دیا اور کہا کہ یہ تعویز پاک چمڑے میں سلائی کرا کے گلے میں پہن لو انشاءاللہ عنقریب تمھارا سعودی عرب جانے کا خواب پورا ہو جائے گا ۔

مرید نے حسب ہدایت تعویز پاک چمڑے میں سلائی کرا کے پہن لیا اللہ کی کرنی ایسے ہوئی کہ تھوڑے عرصے میں اس کا سعودی عرب جانے کا سبب بھی بن گیا اور وہ سعودی عرب پہنچ کر کام پر بھی لگ گیا کچھ عرصہ گزرا تو اس نے سوچا کہ سعودی عرب میں ہوں اور ابھی تک عمرہ نہیں کیا لوگ اتنے پیسے لگا کر حج. عمرہ کے لئے آتے ہیں مجھے تو اللہ نے موقع دیا ہے میں موقع سے فائدہ کیوں نہ اٹھاؤں ۔

اپنی خواہش کا ذکر اس نے جب اپنے دوستوں سے کیا تو انہوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور اس کے ساتھ عمرے پر جانے کے لئے تیار ہو گئے وہ تمام لوگ حالت احرام میں خانہ کعبہ میں آئے، سعودی لوگ توحید کے معاملے میں انتہائی سخت ہوتے ہیں اور حرم کی حدود میں حکومتی اہلکار مقرر ہیں جو لوگوں کو غیر شرعی افعال سے روکتے ہیں ان میں سے جو نرم دل ہوں وہ زبان سے منع کرتے ہیں اور جو طبیعت کے سخت ہوں وہ ایک آدھا طمانچہ بھی رسید کر دیتے ہیں ۔

حرم میں ایک اہلکار کی نظر اس مرید پر پڑ گئی کہ حالت احرام میں اس نے تعویز پہنا ہوا ہے اس نے فوراً اسے عربی میں کہا کہ” یہ شرک ہے” اور ایک ہاتھ سے اس کے گلے سے تعویز کھینچ کے اتارا جبکہ دوسرے ہاتھ سے اسے ایک طمانچہ رسید کیا، عمرے کی ادائیگی سے فراغت کے بعد ج وہ دوست اکٹھے ہوئے تو انہوں نے اس مرید سے حرم میں ہونے والے واقعے پر اظہار افسوس کیا اور شرمندگی کا اظہار کیا کہ ہم آپ کو بتانا بھول گئے کہ تعویز پہننے کی ممانعت ہے ۔

مرید نے بےفکری سے جواب دیا آپ ساری باتیں چھوڑو میرے پیر کی کرامت دیکھو یہ تعویز میں نے سعودیہ آنے کے لئے ان سے لیا تھا اصولاً کام ہونے کے بعد مجھے اسے صاف(پاک) پانی میں بہا دینا چاہیے تھا لیکن میں بھول گیا مگر میرے پیروں کی مجھ پر نظر تھی انہوں نے اس وجہ سے کہ کہیں تعویز اب مجھے پر الٹا اثر نہ کر دے پاکستان میں بیٹھے بیٹھے میرا تعویز بھی اتروا دیا اور طمانچے کی صورت میں میری لاپروائی کی مجھے سزا بھی دے دی۔

تو دوستوں ہم کل بھی اندھی تقلید کر رہے تھے ہم آج بھی اندھی تقلید کر رہے ہیں خدارا کچھ تو اپنے ذہن سے کام لو اس پیر کے کارنامے سنو تو اس وقت روئے زمین پر اس سے زیادہ خدا کا برگزیدہ اور پسندیدہ بندہ کوئی نہیں، اس کی نظر سے کوئی بات پوشیدہ نہیں جبکہ اس کی حالت یہ ہے کہ اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ آج کی محفل میں جو وکیل صاحب مدعو ہیں وہ اس کی جھوٹی عظمت کا پول بھری محفل میں کھولیں گے۔

Leave a reply