آخر پاکستان میں لوگ فوری جنگ کے کیوں خواہاں ہیں؟—— تحریر: حافظ احتشام الحق
مودی سرکار نے کشمیر میں آرٹیکل 370 کا خاتمہ کرکے اپنے گلے میں جو گھنٹی باندھی ہے اس کا انجام اگر کسی کو بالخیر نظر آتا ہے تو اسکو تھوڑا سا انتظار کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ پاکستان بھارت کو “فوری “ اور “منہ توڑ” جواب دے ۔
حیرت انگیز طور پر اس مطالبے میں پیش پیش وہ لوگ ہیں جو امن کی بھاشا کا راگ الاپتے آئے ہیں اور پاکستانی فوج کا مذاق اڑانے اور پاکستانی پالیسیز کو غلط قرار دینے کے ساتھ ساتھ حکومت اور فوج کے خلاف کچھ نہ سننے والوں کو “مطالعۂ پاکستان” اور “بوٹ پالشیا” ہونے کا طعنہ دیتے آئے ہیں۔
میرا ان سب سے ایک ہی سوال ہے۔ آخر آپ کو جنگ کی اتنی جلدی کیوں ہے؟
مودی سرکار نے کشمیر پہ جو کٹا کھولا ہے وہ اگر ان کے لئے خود مسئلہ بننے والا ہے تو آخر ہم اس وقت کا انتظار کیوں نہیں کرسکتے جب تک کہ ایسا کرنا آخری اور کاری ضرب کے مترادف ہوگا؟
مودی سرکار کے آرٹیکل 370 کے خاتمے پر آج جس طرح عالمی میڈیا کا ردعمل آرہا ہے کم از کم میں نے پچھلے پچیس تیس سال میں ایسا نہیں دیکھا۔ جس طرح مغربی میڈیا ان مظالم کو پیش کر رہا ہے اس پر اگر کسی کو لگتا ہے کہ انڈین حکومت پر پریشر نہیں تو وہ غلطی پر ہے ۔
انڈیا پہ عالمی دباؤ بتدریج بڑھ رہا ہے ۔ اور نہ صرف یہ بلکہ پوری دنیا میں موجود مسلمان، اور خصوصا پاکستانی اور کشمیری ملکر جس طرح سے سوشل میڈیا کے زریعے اس مسئلے کو ہائی لائیٹ کر رہے ہیں اس سے مودی سرکار کی پریشانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ٹوئیٹر ہینڈلر سے سرکاری سطح پر انڈیا کے خلاف پروپیگنڈہ کے ٹوئیٹس کو ہینڈل کرنے کے لئے رابطہ کیا گیا ہے۔
یہ تو تھی بیرونی صورتحال اندرونی طور پر اپوزیشن بھی اس سلسلے میں اپنا پریشر مودی سرکار پر بتدریج بڑھا رہی ہے۔ کئی اسٹیٹ نے آرٹیکل 370 کے خاتمے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے “constitutional coup “ اور آئین کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے ۔
اندرونی طور پر دوسرا پریشر سپریم کورٹ کا بھی ہوگا ۔ کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے۔ کشمیر کی خطرناک صورتحال کے پیش نظر سپریم کورٹ میں آج اس کیس کو سننے کا آغاز ہوا۔ انڈین سپریم کورٹ سے اس ضمن میں بہت امید ہے کیونکہ اس آرٹیکل کا خاتمہ اور (سو کالڈ) الیکٹڈ گورنمنٹ کو اریسٹ کرکے منسٹری کے کنٹرول میں دینا براہ راست انڈین آئین کی کچھ شقوں کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔
اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ صورتحال خطرناک ہے اور حکومت کو کچھ وقت دیا جائے ۔ اور جسطرح دو ہزار سولا میں برہان وانی کی شہادت کے وقت کے صورتحال تھی اس سے بچنے کے لئے کرفیو نافذ کیا گیا ۔ اور کیمیونیکیشن پر بین ہے ۔ لیکن جلد اسمیں بہتری آئے گی۔ حکومتی درخواست پر سماعت دو ہفتے تک ملتوی کی گئی ہے لیکن پٹیشنر اگر اگلے چند دن میں صورتحال سے مطمعین نہ ہو تو عدالت سے رابطہ کرسکتا ہے ۔ جو یقیناً ہونے والا ہے کہ کشمیر کی صورتحال خراب تو ہوسکتی ہے بہتر نہیں ۔
اندرونی طور پر تیسرا پریشر خود کشمیریوں کا ہے ۔ جسطرح سخت کرفیو اور سخت اقدامات کے باوجود کشمیری باہر نکلے اور دس اگست کو احتجاج کیا وہ پوری دنیا نے براہ راست دیکھا ۔ کشمیر کی جنگ آزادی “ناؤ اور نیور “ تک پہنچ گئی ہے۔ دنیا روز کرفیو اور بہت بڑی تعداد میں فوج کی موجودگی کے باوجود کشمیریوں کو احتجاج کرتےہوئے دیکھ کر مسئلے کی سنگینی کا اندازہ لگا رہی ہے۔
دوسری طرف پاکستان کشمیر ایشو کو ہر سطح پر ہائی لائیٹ کر رہا ہے ۔ چاہے وہ سیکیورٹی کونسل ہو او آئی سی یا دیگر دوست ممالک کو اعتماد میں لینے کا معاملہ ۔ پاکستانی عوام مسلسل حالت احتجاج میں ہے چاہے سوشل میڈیا ہو، ریلیاں اور مکمل احتجاج کا معاملہ ہر شہر اور ہر سطح پر احتجاج کیا جارہا ہے۔ انڈیا کے یوم آزادی پر سرکاری سطح پر یوم سیاہ منانا ایک بہت اہم قدم ہے۔
چائنا کا اس مسئلے پر تشویش کا اظہار اور پاکستان کے ساتھ مل کر سلامتی کونسل میں اٹھانے کا ارادہ ایک الگ اہمیت رکھتا ہے ۔ جو اس مسئلے کو دو ملکوں کے بجائے تین نیوکلئیر پاور ممالک کے درمیان ہونے والے عالمی ایشو بنا دے گا۔
انڈین چینلز پر پاکستان کے ہر اقدام پر بڑھتا ہوا شور اس بات کا ثبوت ہے کہ انڈیا اس وقت مسئلہ کشمیر کو خود اس نہج پر لا چکا ہے کہ جلد اس کے ایک منطقی حل کے سوا بلاخر کوئی چارہ نہ رہے گا ۔
اس قسم کی چومکھی مودی سرکار کتنا برداشت کرے گی اس کا اندازہ اگلے چند دنوں میں بخوبی ہونے والا ہے۔ مودی سرکار اس پریشر کو ریلیز کرنے کے لئے یقیناً پاکستان پر دباؤ ڈالنے اور
انتخابات سے پہلے کی طرح کی کوئی کاروائی کرے یہ بعید از قیاس نہیں ۔ اور پاکستان اپنا آخری پتے اس وقت ہی شو کرے گا۔
پاکستان پہل کرکے اس پریشر کو انڈیا سے اپنی طرف منتقل کرنے کی غلطی کے بجائے اسٹرٹیجیک موو لے رہا ہے ۔ کیونکہ یہ تو طے شدہ امر ہے کہ کشمیر کا مسئلہ ہمیشہ طاقت سے ہی حل ہونا ہے ۔ لیکن ایک اچھا کھلاڑی نہ وقت سے پہلے اپنے ارادے کا اظہار کرتا ہے نہ اپنے اگلے قدم کا۔ اسلئے زرا دھیرج رکھئیے ۔ اور صحیح وقت پر صحیح فیصلے کا انتظار کیجئے.