ایئر انڈیا نے ایک غیر معمولی انتظامی غفلت کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس کا ایک بوئنگ 737 کارگو طیارہ 13 برس تک ایئرلائن کے سرکاری ریکارڈ سے غائب رہا، یہاں تک کہ گزشتہ ماہ یہ طیارہ اچانک ایک ایئرپورٹ کے دور دراز پارکنگ بے میں موجود پایا گیا۔
بوئنگ 737-200 کارگو طیارہ (رجسٹریشن نمبر VT-EHH) سنہ 2012 میں کولکتہ ایئرپورٹ پر پارک کیا گیا تھا، جہاں اسے باقاعدہ طور پر ڈی کمیشن کر دیا گیا۔ تاہم اس کے بعد یہ طیارہ ایئر انڈیا کے اندرونی ریکارڈ سے مکمل طور پر غائب ہو گیا اور کئی برس تک کسی بھی سرکاری دستاویز میں اس کا ذکر موجود نہیں رہا۔اس دوران کولکتہ ایئرپورٹ انتظامیہ طیارے کی پارکنگ فیس مسلسل عائد کرتی رہی اور ایئر انڈیا کو باقاعدہ بل بھی بھیجتی رہی۔ تاہم ایئر انڈیا نے ان بلوں کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ اس کے پاس ایسا کوئی ریکارڈ موجود نہیں جس سے ثابت ہو کہ VT-EHH رجسٹریشن والا کوئی طیارہ وہاں پارک ہے یا اس کی ملکیت ایئر انڈیا کے پاس ہے۔
یہ صورتحال اس وقت بدلی جب کولکتہ ایئرپورٹ انتظامیہ نے باضابطہ طور پر ایئر انڈیا سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے طیارے کو ایئرپورٹ سے ہٹائے۔ اس کے بعد ایئر انڈیا نے اندرونی تحقیقات کیں، جن کے نتیجے میں یہ تصدیق ہوئی کہ مذکورہ طیارہ واقعی اسی کی ملکیت ہے۔ایئر انڈیا کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کیمبل ولسن نے اس غیر معمولی غفلت کا اعتراف ایک اندرونی پیغام میں کیا، جو بعد ازاں میڈیا میں وسیع پیمانے پر رپورٹ ہوا۔ اپنے پیغام میں انہوں نے کہا “پرانے طیاروں کو فروخت یا ضائع کرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں، مگر یہ معاملہ اس لیے منفرد ہے کہ یہ ایک ایسا طیارہ تھا جس کے بارے میں ہمیں حال ہی میں معلوم ہوا کہ ہم اب بھی اس کے مالک ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ طیارہ ہماری یادداشت اور ریکارڈ سے محو ہو گیا، یہاں تک کہ کولکتہ ایئرپورٹ پر ہمارے دوستوں نے ہمیں بتایا کہ یہ ایک (انتہائی) دور دراز پارکنگ بے میں کھڑا ہے اور اسے ہٹانے کا کہا۔ تصدیق کے بعد ہم نے اسے وہاں سے ہٹا دیا اور یوں اپنی الماری سے ایک اور پرانا جالا صاف کر دیا۔”
ایئر انڈیا کے مطابق یہ طیارہ مختلف انتظامی تبدیلیوں اور تنظیمی اصلاحات کے دوران ریکارڈ سے نکلتا چلا گیا۔ طیارے نے ابتدا میں انڈین ایئرلائنز کے ساتھ اپنی سروس کا آغاز کیا تھا، بعد ازاں 2007 میں انڈین ایئرلائنز کے ایئر انڈیا میں انضمام کے بعد یہ طیارہ ایئر انڈیا کے بیڑے کا حصہ بن گیا۔ کچھ عرصے بعد اسے کارگو طیارے میں تبدیل کیا گیا اور انڈیا پوسٹ کو لیز پر دیا گیا، تاہم بعد میں اسے سروس سے ہٹا لیا گیا۔کیمبل ولسن کے مطابق یہ طیارہ بار بار ایئر انڈیا کے اندرونی ریکارڈ میں شامل ہونے سے رہ گیا، حتیٰ کہ 2022 میں ایئر انڈیا کی نجکاری کے دوران بھی یہ اہم منتقلی دستاویزات میں شامل نہیں ہو سکا۔ بھارتی اخبار ٹریبیون انڈیا کے مطابق، جب کوئی اثاثہ استعمال میں نہ ہو اور کاغذی ریکارڈ میں شامل نہ رہے تو اس کا فراموش ہو جانا نسبتاً آسان ہو جاتا ہے۔
فضائی شعبے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ عام طور پر ایئرلائنز ایسے حالات سے بچنے کے لیے انتہائی محتاط ہوتی ہیں، کیونکہ زمین پر کھڑے طیارے منافع کے بجائے اخراجات کا سبب بنتے ہیں۔ جان اسٹرکلینڈ، جو JLS کنسلٹنگ کے بانی ہیں، نے بھارتی اخبار دی ٹیلی گراف سے گفتگو کرتے ہوئے کہا “ریگولیٹری نگرانی کے ہوتے ہوئے یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ کوئی ایئرلائن واقعی ایک طیارے کو کھو دے۔ عام طور پر مینٹیننس ریکارڈ اور پرزہ جات کے سیریل نمبرز نہایت سختی سے کنٹرول کیے جاتے ہیں۔”
بوئنگ 737-200 دراصل 1960 کی دہائی کے اواخر میں متعارف کرایا گیا بوئنگ 737 ماڈل کا ابتدائی ورژن ہے، جسے طویل عرصہ قبل مسافر سروس سے ریٹائر کر دیا گیا تھا۔ صنعت کے ماہرین کے مطابق اس طیارے کی مجموعی دوبارہ فروخت کی قیمت اب نہ ہونے کے برابر ہے، تاہم اس کے کچھ پرزے، خاص طور پر پراٹ اینڈ وٹنی انجنز، اب بھی دوبارہ استعمال کے قابل ہو سکتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق یہ ایئر انڈیا کا واحد ریٹائرڈ طیارہ تھا جسے انجنز کے ساتھ برقرار رکھا گیا تھا۔








