اسلام آباد: سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت 21 فرفوی تک ملتوی کر دی-

باغی ٹی وی: سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی،دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیب قانون کے ساتھ کیا واضح نہیں ہے کہ کیسز منتقل ہو کر کہاں جائیں گے؟۔

وفاقی حکومت کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ چئیرمین نیب کی سربراہی میں کمیٹی ہے جو کیسز کی متعلقہ فورمز پر منتقلی کا معاملہ دیکھ رہی ہے، برطانیہ میں کہا جاتا ہے کہ اگر کسی معاملے کا فیصلہ نا کرنا ہو تو اس کو کمیٹی میں بھجوا دیں، نیب آرڈیننس 2019 کے تحت 41 افراد بری ہوئے تھے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس کیس میں عدالت خود کو 2022 کی نیب ترامیم تک ہی محدود رکھے گی۔

حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ عمران خان کی درخواست میں حقائق درست انداز میں نہیں بتائے گئے، درخواست میں پٹشنر کو نیب ترامیم کا آئین کی شقوں سے متصادم کے متعلق بتانا ہوتا ہے، عمران خان کی درخواست میں ٹوٹل 47 قانونی سوالات ہیں، ان 47 قانونی سوالات میں صرف 4 میں نیب ترامیم کے ساتھ آئینی شقوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔

وکیل نے کہا کہ نیب ترامیم کے درخواست میں پہلے دو سوالات ضیا اور مشرف دور کے ریفرنڈم والے ہیں، نیب ترامیم کی درخواست میں 21 قانونی سوالات دراصل سوالات ہی نہیں ہیں، درخواست کے ان 21 سوالات میں کسی نیب ترامیم یا بنیادی حقوق کا حوالہ نہیں دیا گیا-

دلائل میں وکیل نے مزید کہا کہ درخواست کے 16 سوالات میں نیب ترامیم کا حوالہ دیا گیا پر بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں بتائی گئی، درخواست میں 6 سوالات میں بنیادی حقوق بتائے گئے مگر نیب ترامیم نہیں درج کی گئیں، عمران خان نے درخواست میں امپورٹڈ سازش کا ذکر بھی کیا ہے، پچھلے کچھ دنوں کے اخبارات کے مطابق اب یہ امپورٹڈ سازش بھی ایکسپورٹڈ سازش بن چکی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے تو عمران خان کی درخواست کا فارنزک آڈٹ کر دیا ہےکیس کو جلد ختم کرنا چاہتےہیں، بہت سے اہم معاملات غور طلب ہیں ،کیس کی سماعت 21 فروری تک ملتوی کر دی گئی۔

واضح رہے کہ خیال رہے کہ گزشتہ سال جون میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں، لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی، تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔

نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی 4 سال کی مدت بھی کم کر کے 3 سال کردی گئی ہے۔

قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔

بل میں کہا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی، بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے 3 سال کی مدت بھی مقرر کی ہے، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔

مجوزہ قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے، بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔

Shares: