کابینہ کا سائز چھوٹا کرنے کی بجائے بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا،خالد مسعود سندھو

ملک کو تباہ کرنے میں آئی ایم ایف کے ساتھ ہمارے حکمرانوں کا برابر کا ہاتھ
0
60
khalid masood sindhu

پاکستان مرکزی مسلم لیگ کے صدر خالد مسعود سندھو اور جنرل سیکرٹری محمد اعظم چوہدری نے کہا ہے کہ ملک میں موجود سیاسی و معاشی بحران کے ذمہ دار وہ سب سابقہ حکمران ہیں جو گزشتہ 30 سالوں سے ملک میں برسر اقتدار رہے ہیں۔سابقہ حکمرانوں نے اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ہمیشہ ترجیح دی ہے، جنہوں نے غلط پالیسیاں بنا کر، کرپشن کرکے، ناجائز مراعات حاصل کرکے اور قرضے معاف کروا کر ملک کو معاشی اور اقتصادی بحران سے دوچار کیا ہے اور اب آئی ایم ایف کا بہانہ کرکے مشکل فیصلوں کا سارا بوجھ عوام پر ڈالا جارہا ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور میں مرکزی سیکرٹریٹ میں منعقدہ اجلاس میں کارکنان اور ذمہ داران سے گفتگو کرتے ہوئے کیا انہوں نے مزید کہا کہ وزیر خزانہ کو چاہیے کہ اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات اگر ایک سال کے لیے روک لیں تو ان میں کوئی ایک بھی بھوکا یا پیاسا نہیں مرے گا ہم گارنٹی دیتے ہیں، آج بھی بجٹ خسارہ درست کرنے کے لیے شاہانہ حکومتی اخراجات کم کرنے، کابینہ کا سائز چھوٹا کرنے اور کرپشن کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات کرنے کی بجائے سارا بوجھ غریب عوام پر ڈالا جارہا ہے ۔آئی ایم ایف امریکہ انڈیا اور دوسرے پاکستان مخالف ممالک کے تعاون سے جو پالیسیاں ہمارے اوپر مسلط کررہا ہے،

خالد مسعود سندھوکا کہنا تھا کہ اس سے پاکستان کا متوسط طبقہ پس کر رہ گیا ہے،پاکستان میں سالانہ دو ہزار 660 ارب روپے کی مراعات مختلف مدات میں اشرافیہ کو دی جاتی ہیں ۔موجودہ معاشی حالات میں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے کہ حکمرانوں کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ ٹیکس چوری،اشرافیہ کو مراعات اور اربوں روپے خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں جیسے مسائل پر توجہ دی جائے، آئی ایم ایف نے حکومتی اشرافیہ کے شاہانہ اخراجات کو نظر انداز کرکے صرف غریب سے زندہ رہنے کا بھی حق چھیننا چاہتا ہے ملک کو تباہ کرنے میں آئی ایم ایف کے ساتھ ہمارے حکمرانوں کا برابر کا ہاتھ ہے جو غریب مکاؤ پالیسی پر عمل کرنے جارہے ہیں۔

ملک کی ترقی میں مزدوروں اور محنت کشوں کا بنیادی کردار ہوتا ہے

بہن بھائیوں کو بھی عید کی خوشیوں میں اپنے برابر کاشریک کریں 

قرضے لیکر معیشت میں کبھی بھی استحکام پیدا نہیں کیا جا سکتا،

Leave a reply