مزید دیکھیں

مقبول

بوجھ پھولوں کا اٹھاتے ہوئے ڈرتے ہیں

کتنے نازک ہیں نئے دور کے شہزادے بھیٌٌٌٌٌ
سمیرا عزیز

اردو ، عربی اور انگریزی کی معروف ادیبہ، شاعرہ ، صحافی اور کالم نگار

یوم پیدائش: 24 جون 1976
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نام سمیرہ عزیز
ولدیت: عزیز الر حمٰن (مرحوم)
والدہ محترمہ: مہر افروز (مرحومہ )
مقامِ پیدائش: الخبر۔ سعودی عرب(AlKhober, Saudi Arabia)

موجودہ سکونت: جدہ، سعودی عرب
قومیت: سعودی
تعلیم: پی ایچ ڈی زیرِ تحقیق، ماسٹرز بین اااقوامی تعلقات، ماسٹرز جرنلزم، ماسٹرز ماس میڈیا (تخصص فلم سازی)
پیشہ: سعودی میڈیا و بزنس وومن (چئیر پرسن سمیرہ عزیز گروپ آف کمپنیز)

لکھنے کی ابتداء؟ نو برس کی عمر سے بچوں کے معروف رسالوں میں لکھنا شروع کیا

طبع آزمائی: ناول نگاری،افسانہ نگاری،مضمون نگاری، شاعری، فلمی اسکرین پلے،،نیوز رائٹر،اداریہ، سماجی و سیاسی کالم نگاری، تحقیقی مقالے، گانوں کے بول، اسٹیج شو وغیرہ

تصانیف و تالیف (نام و سن): بچوں کی بے شمار کہانیاں ((1985-1991،افسانہ نگاری (1991سے جاری ہے مثلاَ اجنبی میرے آنگن کا وغیرہ)، ناول ”رشتے بدل بھی جاتے ہیں“(سال 2000)،کالم و نیوز(سال 2000 سے جاری ہے)،دیوان ’کاغذ کی زمین‘)سال(2016، ڈیجیٹل البم ’موم کی گڑیا‘ (زیر نظرسال (2018، ’لفظوں کی کائنات‘(سال (2020، بالی ووڈ فلم اسکرپٹ، فلم ریم، فلم جر ات۔ڈئیر ٹو لو، فلم فرمان، سعودی فلم اسکرپٹ خلینی اطیر(مجھے اڑنے دو)،سعودی فلم اسکرپٹ ’منو‘
۔۔۔ کن زبانوں میں طبع آزمائی کرتی ہیں؟ اردو،انگریزی، عربی

اعزازات (ادبی/غیر ادبی): سعودی عرب کی پہلی اردو ناول نگار خاتون، جی سی سی رائٹرز ایوارڈ،گریٹ وومن ایوارڈ دوبئی، جرنلزم ایوارڈ انڈیا، بزنس ایوارڈ ریاض، سعودی کلچرل ایوارڈبرائے سو میڈیاافراد وغیرہ
۔۔۔ مضامین یا منظومات جن رسائل میں شائع ہوئے یا ہوتے ہیں؟ ہمدرد، بچوں کی دنیا، نونہال، دوشیزہ، پاکیزہ، اردو نیوز، اردو میگزین،آواز (سعودی عرب)، سعودی گزٹ وغیرہ
۔۔۔
دیگر معلومات: سمیرہ عزیز نے نو برس کی عمر سے بچوں کی کہانیاں لکھنا شروع کیں۔ حکیم محمد سعید (مرحوم) کے ننھے لکھاریوں میں وہ بھی ایک تھیں اور ہمدرد رسالے میں ان کی پہلی کہانی ’ماں‘ شائع ہوئی تھی۔ وہ ساتھ ساتھ نظمیں بھی لکھتیں تھیں۔ وہ سعودی عرب کی پہلی’اردو ناول نگار‘ہیں۔انہوں نے میڈیا میں باقاعدہ 1999ء میں قدم رکھا اور ان کی تربیت سعودی وزارت برائے ثقافت و اطلاعات کے زیر نگرانی ہوئی۔ اس کے بعد ان کو امیر احمد بن سلمان (مرحوم) کی سرکردگی میں سعودی ریسرچ و مارکیٹنگ گروپ کے غیر ملکی زبان کے روزنامے و ہفتہ روزہ مجلے اردو نیوز اور اردو میگزین میں تعینات کیا گیا۔ سمیرہ عزیز نے وہاں اپنی محنت، قابلیت او ر جراتمندانہ رپورٹوں سے قدم جمائے۔وہ خفیہ’اسٹنگ آپریشن‘ بھی کرتیں اور حقائق سے پردہ اٹھاتیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب صحافت میں سعودی عرب میں خواتین کا ہونا ایک اچھوتی بات تھی۔سات برس بعد سمیرہ عزیز کوانگریزی روزنامے سعودی گزٹ کی سینئیر انٹرنیشنل ایڈیٹر بنا کر بھیج دیا گیا جو کہ ملک کی بڑی کمپنی عکاظ کے زیر اہتمام شائع کیا جاتا تھا۔ سمیرہ عزیز نے وہاں بھی محنت و خوش دلی سے فرائض منصبی ادا کئے۔ سمیرہ عزیز نے اس ادارے سے اردو ہفت روزہ ’آواز‘ کا بھی اجراء کیا۔آٹھ سال وہاں خدمات انجام دینے بعد سمیرہ عزیز مزید اعلیٰ تعلیم کیلئے بیرونِ ملک چلی گئیں۔انہوں نے انٹر نیشنل ریلشن، صحافت،ماس کمیونیکیشن اور فلمسازی میں ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں۔ ان کو تعلیم حاصل کرنے کا جنون کی حد تک شوق رہا ہے۔سمیرہ عزیز نے جدہ میں اپنے کاروبار’سمیرہ عزیز گروپ‘کی بنیاد ڈالی۔وہ ذاتی طور پرکئی کمپنیوں مثلاََ فلم کمپنی، اشتہاری ایجنسی (ایڈ ایجنسی)، غذائی کمپنی،امپورٹ ایکسپورٹ، ٹرانسپورٹ اور ایونٹ کمپنی اورشاپنگ اسٹور کی مالکہ ہیں۔ سمیرہ عزیز کی شادی اس وقت ہوئی تھی جب وہ محض 16برس کی تھیں۔ انہوں نے تعلیمی سلسلہ شادی کے بعد جاری رکھا اور محنت،ہمت و عزم کا طویل سفر طے کیا۔سعودی شہریت یافتہ ہوئے بھی اردو کا دامن انہوں نے نہ چھوڑا۔ میڈیا،ثقافت اور ادبی میدانوں میں اردو اور ا نگریزی زبانوں کا مثبت استعمال کرکے انہوں نے اپنے وطن سعودی عرب کو دنیا کے سامنے حقیقی طریقے سے روشناس کروانے کا ذریعہ حاصل کیا۔ ان کی شاعری میں ان کی اپنے وطنِ عزیز سعودی عرب سے محبت کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میں بنیادی طور پرایک صحافی ہوں اور رپورٹنگ کرنا میرا کام ہوا کرتا تھا۔ اسلئے معاشرے میں رونما ہونے والی ہر روداد میری شاعری میں جھلکتی ہے۔ ان کی شاعری میں انسانی درد اور جذبوں کی عکاسی ملتی ہے۔وہ فر ضی واردات نہیں لکھتیں، چاہے وہ شاعری ہو یا فلم اسکرپٹ، وہ وہی کچھ لکھتی ہیں، جو اپنے ارد گرد دیکھ چکی ہوتی ہیں۔

اپنی شاعری معاشرے کی نذر کرتے ہوئے وہ اہم بات کہتی ہیں کہ ”اگر سعودی عرب کے صحراء سے اردو شعر و نثر کے گلاب لے کر مَیں نہ نکلی تو کہیں یہ پھول مرجھا نہ جائے۔ مجھے اپنی اردو اور اس سے منسوب اپنی ذاتی کاوشوں پر فخر ہے۔اس وقت بطور سعودی شہری میں آگے نہ آئی تو اردو کا علَم اٹھا کر اس صحراء سے کون دنیا میں نکلے گا؟ صحراء میں عظیم زبان اردو کے پھول کھلتے ہیں، یہ کو ن بتائے گا؟تاریخ مجھے کبھی معاف نہیں کرے گی۔ میرا کو ئی بھی شعر میری ذات سے منصوب نہ کیجئے گا، بلکہ یہ دیکھئے گا کہ میں نے کسی دوسرے انسان کا درد و مسرت کتنی اپنائیت سے پیش کئے ہیں، اور کتنی سچائی و صاف گوئی سے دوسرے کے دکھ سکھ اپنا کر شعر کی صورت میں ڈھالے ہیں۔جس لمحے میرے شعر میں پوشیدہ ٹِیس و چبھن آپ کومحسوس ہوں، بس وہی میری کامیابی کا لمحہ ہے۔ آپ اگر اپنے ارد گرد اس طرح کے درد کو محسوس کریں تو اس کا مداوہ کرنے کیلئے اور کچھ نہیں کر سکتے ہوں تو ’صرف ایک مسکراہٹ‘ کسی کوہدیہ کرکے بھی دکھی انسانیت کو پیار کا پیغام دے سکتے ہیں۔ میرا پیغام ہے

یونہی نہیں سخن کا اثاثہ ملا مجھے
گزری ہے میری عمر کتابوں کے درمیاں

آغا نیاز مگسی
آغا نیاز مگسیhttp://baaghitv.com
آغا نیاز مگسی ,ادیب، شاعر، کالم نویس، تجزیہ و تبصرہ نگار سابق صدر ,ڈیرہ مراد جمالی پریس کلب نصیر آباد بلوچستان