بولان کے علاقے مشکاف ٹنل ڈھاڈر کے قریب امن دشمن دہشت گردوں نے منظم کاروائی کرتے ہوئے ریلوے ٹریک کو دھماکے سے اڑا کر کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس کو روک کر مسافروں اور عملہ کو یرغمال بنا لیا۔ تین سو سے زائد مسافروں کو یرغمال بنانے کی خبر نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونی دنیا کیلئے بھی بریکنگ نیوز تھی۔ ٹرین پر قبضے کے وقت بیس کے قریب مسافروں کی ہلاکت کی اطلاع، جدید اسلحہ سے لیس دہشت گرد، نوسگنل ایریا، سرنگ اور پہاڑی علاقہ ان مشکل حالات میں انٹرنیشنل میڈیا اور بیرونی دفاعی تجزیہ کاروں کی اکثریت کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے مطالبات ماننے کے علاوہ کوئی حل ممکن نہیں جبکہ باقی تجزیہ کاروں کا کہنا تھا انسانیت دشمن دہشت گردوں کے چنگل سے مسافروں کا ذندہ بچنا مشکل ہے۔
ہمیشہ کی طرح مشکل کی اس گھڑی میں افواج پاکستان نے اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے فوجی آپریشن کے زریعے انتہائی جرات و بہادری اور کامیابی سے ناصرف تمام یرغمال مسافروں کو بازیاب کروایا بلکہ تمام دہشت گردوں کو جہنم واصل کردیا۔
افواج پاکستان نے انتہائی احتیاط اور حکمت عملی سے دوران آپریشن تمام 300کے قریب مسافروں کومحفوظ رکھتے ہوئے تمام 33دہشت گردوں کو بھی ابدی نیند سلاتے ہوئے واضح پیغام دیا کہ افواج پاکستان اس وطن عزیز کی ایک ایک انچ اور ہر شہری کی حفاظت کیلئے موجود ہیں اس لیے ملک دشمنوں کے عزائم کبھی پوری نہیں ہوسکتے۔ مشکل ترین حالات میں ناممکن کو ممکن بنانا افواج پاکستان کا ہی اعزاز ہوتا ہے۔اس دوران سوشل میڈیا پر ٹرین حادثے کے حوالے سے مسافروں کی شہادت، افواج مخالف پروپیگنڈا، سنگین الزامات اور من گھڑت تجزیوں کی بھرمار رہی۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ محض ڈالروں کی خاطر سنسنی پھیلا کر ملکی سلامتی کو داؤ پر لگا کر پیسہ اکٹھا کرنے والے جسم بیچ کر کمائی کرنے والوں سے بھی زیادہ غلیظ ہیں۔ڈس انفارمیشن، فیک نیوز اور پراپیگنڈا کی تشہیر ان ڈیجیٹل دہشت گردوں کا وطیرا بن چکا ہے۔ہمسایہ ملک بھارت کئی ماہ پہلے سوشل میڈیا کا کنٹرول آرمی کے حوالے کرچکا ہے کیونکہ ڈیجیٹل دہشت گردی کو بھی فوج کے سوا کوئی کنٹرول نہیں کرسکتا۔ سوشل میڈیا کے زریعے سنسنی پھیلانے والے شرپسند عناصر کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہوگا۔ ملکی سلامتی اور استحکام کے خلاف کام کرنے والے عناصر کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہ برتی جائے، اندرون و بیرون ملک جہاں کہیں سے بھی شر پسند اکاؤنٹس چلائے جارہے ہیں انکو عبرت ناک سزائیں دی جائیں تا کہ آئندہ کوئی بھی شخص فیک نیوز اور جھوٹے پراپیگنڈا کے زریعے امن و امان کی صورت حال کو خراب کرنے کی جرات نا کر پائے۔
شرپسند گروہوں اور ان کے حامی تجزیہ کاروں کی جانب سے پاک فوج کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، من گھڑت افواہیں اڑائی جاتی ہیں، ہتک آمیز اور اشتعال انگیز ریمارکس دیے جاتے ہیں۔
”سائبرکرائم اور ڈیجیٹل دہشت گردی“ روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ان ڈیجیٹل دہشت گردوں کو پاتال سے بھی تلاش کرنا پڑے تو نکالا جائے اورکڑی سے کڑی سزا دے کر نشان عبرت بنا دیں۔ جھوٹ کا کاروبار کرنے اور عوام میں نفرت کا زہر گھولنے والے ڈیجیٹل دہشت گردوں کوسخت سزائیں دیے بن گزارا نہیں۔ قوم کو گمراہ کرنا، ورغلانا اور ذاتی مفادات کیلئے ملک میں فساد برپا کرنا ملک دشمنی نہیں تو اور کیا ہے؟
سوشل میڈیا قوانین کے حوالے سے چین، روس، ترکی، ایران، سعودی عرب سمیت بہت سے ممالک میں سخت قوانین نافذ ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے قانون کے مطابق ایسی اشاعت جو ریاستی مفادات، سلامتی، خودمختاری، امن عامہ، خوشگوار تعلقات کو نقصان پہنچا سکتی ہو، نفرت کے جذبات کو ہوا دے، ریاستی ادارے پر عوام کے اعتماد کو کم کرے ایسی اشاعت کرنے والے کو تین لاکھ درہم سے ایک کروڑ درہم تک جرمانہ اور قید کیا جا سکتا ہے۔
پیکا کو مذید سخت کرنا ہوگا، متحدہ عرب امارات جیسے قوانین لاگو کرنا ہونگے جہاں سوشل میڈیا تو درکنار کوئی ہوٹل، ریسٹورنٹ اور گھر کی چار دیواری میں بھی ملکی سلامتی کے اداروں پر تنقید کا نہیں سوچ سکتا۔
میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ میں سائبر کرائم کے چند افسران کو جانتا ہوں جو ناقص تفتیش کرکے حکومت اور ملکی سلامتی کے اداروں پر تنقید کرنے والے ملزمان کو سزاؤں سے بچاتے رہے ہیں۔ سائبر کرائم کے کچھ افسران نے ایک گینگ بنا رکھا ہے جو مدعی اور ملزم دونوں کا موبائل لیکر فرانزک کی آڑ میں پرسنل ڈیٹا حاصل کرکے شہریوں کو بلیک میل کرتے ہیں لڑکے سے پیسے اور لڑکی سے عصمت کی سودے بازی ہوتی ہے۔
سائبر کرائم جیسے اہم ادارے کو صرف پولیس اور ایف آئی اے کے افسران کے حوالے کرنے کی بجائے اس کی”سپرویژن“ کیلئے آرمی افسران تعینات کیے جائیں تا کہ ناصرف سوشل میڈیا کے دہشت گردوں کو نکیل ڈالی جائے بلکہ ہر طرح کے استحصال کا بھی خاتمہ ممکن ہوسکے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سائبر کرائم کیلئے الگ سے ججز مقرر ہونے چاہئے جو خود سوشل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی کو سمجھتے ہوں، پروفیشنلی ٹرینڈ ججز نہ ہونے کی وجہ سے ڈیجیٹل دہشت گردی میں ملوث ملزمان عدالت سے ریلیف حاصل کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں۔