حکومتی بے حسی اور پاکستان میں برین ڈرین
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفےٰ بڈانی
پاکستان آج ایک ایسی کربلا سے گزر رہا ہے جہاں اس کے نوجوان، اس کا سب سے قیمتی اثاثہ، معاشی بدحالی، ہوشربا مہنگائی اور حکومتی بے حسی کے ہاتھوں اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ 2023 سے جولائی 2025 تک، لاکھوں پاکستانی، جن میں ڈاکٹرز، انجینئرز، نرسز، اور اساتذہ شامل ہیں، بہتر مستقبل کی تلاش میں ہجرت کر گئے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف 2025 کے پہلے تین ماہ میں 172,144 نوجوان روزگار کے لیے بیرونِ ملک روانہ ہوئے جبکہ سیالکوٹ جیسے صنعتی شہر سے 4831 نوجوان، جن میں 60 فیصد تعلیم یافتہ تھے، نے وطن کو الوداع کہا۔ بدقسمتی سے، غیر قانونی سمندری راستوں سے یورپ جانے کی کوشش میں 343–353 پاکستانی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ اعداد و شمار صرف ہندسوں کا مجموعہ نہیں، بلکہ ہر اس خاندان کی چیخ و پکار ہیں جنہوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا۔
2023 میں 862,000 اور 2024 میں 727,381 پاکستانی ہجرت کر گئے، جن میں سے 45,687 ہنرمند افراد تھے۔ 2025 کے پہلے تین ماہ میں یہ تعداد 172,144 تک جا پہنچی، اور اگر چھ ماہ کے اعداد و شمار شامل کیے جائیں تو یہ تعداد کئی لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ سیالکوٹ سے ہجرت کرنے والے 4831 نوجوانوں میں سے 60 فیصد اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے، جو وطن میں اپنی صلاحیتوں کے مطابق روزگار نہ ملنے کے باعث مشرق وسطیٰ، یورپ، اور امریکہ کی طرف رخ کر گئے۔ یہ "برین ڈرین” پاکستان کے مستقبل کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، کیونکہ ملک اپنی باصلاحیت نسل کھو رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک جیسے سعودی عرب، قطر، اور دبئی تعمیراتی اور ٹیکنیکل شعبوں میں ملازمتیں فراہم کر رہے ہیں، لیکن یورپ جانے کی خواہش میں کچھ نوجوان غیر قانونی سمندری راستوں کا انتخاب کرتے ہیں، جہاں انسانی سمگلرز ان کے خوابوں کا استحصال کرتے ہیں۔
غیر قانونی ہجرت کے دوران سمندری سانحات نے پاکستانی معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ 2023 سے جولائی 2025 تک، 343–353 پاکستانی بحیرہ روم اور بحر اوقیانوس میں کشتیوں کے ڈوبنے سے ہلاک ہوئے۔ اٹلی کے کروٹون ساحل پر 27 فروری 2023 کو ہونے والے حادثے میں 6 پاکستانی ہلاک ہوئے، جن میں سے 2 کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی اور 4 لاپتہ رہے۔ یونان کے پلاس ساحل پر جون 2023 میں ایک کشتی ڈوبنے سے 241–251 پاکستانی ہلاک ہوئے، جن میں سے 111 مصدقہ اور 130–140 غیر مصدقہ ہیں۔ لیبیا کے ساحلوں پر مارچ 2023، فروری 2025، اور جولائی 2025 سے قبل کے واقعات میں 29–39 پاکستانی اپنی جان سے گئے۔ مراکش کے ساحل پر جنوری 2025 میں 13 اور بحر اوقیانوس میں 2 جنوری 2025 کو 44 پاکستانی ہلاک ہوئے، جب انسانی سمگلرز نے پیسوں کے تنازع پر کچھ افراد کو سمندر میں پھینک دیا۔ ہر ہلاکت ایک ماں کی چیخ، ایک باپ کی امید اور ایک خاندان کے ٹوٹے ہوئے خوابوں کی کہانی ہے۔
اس المیے کی جڑیں پاکستانی معاشرے کے معاشی اور سماجی حالات میں پیوست ہیں۔ 2023 میں افراط زر 46 فیصد تک جا پہنچا، جو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح ہے۔ آٹا، چینی اور ایندھن کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں جبکہ بجلی کے بل تین گنا اور ایندھن کی قیمتیں دگنی ہو چکی ہیں۔ ایک عام پاکستانی خاندان اپنی آمدن کا 70 فیصد کھانے اور بجلی کے بلوں پر خرچ کر رہا ہے۔ بے روزگاری کی شرح 22 فیصد تک پہنچ گئی ہے اور 4.5 ملین پاکستانی بے روزگار ہیں، جن میں سے 11.1 فیصد نوجوان ہیں۔ سیالکوٹ جیسے شہر جو صنعتی سرگرمیوں کے لیے مشہور ہے، وہاں بھی 60 فیصد تعلیم یافتہ نوجوانوں کو نوکریاں نہیں مل رہیں۔ ایک 33 سالہ خاتون جو برطانیہ ہجرت سے قبل دو نوکریاں کرتی تھی، کہتی ہیں کہ وہ گھریلو اخراجات پورے نہ کر سکیں۔ یہ حالات نوجوانوں کو وطن چھوڑنے پر مجبور کر رہے ہیں۔
حکومتی بے حسی نے اس بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ وزراء خاص طور پر اویس لغاری جیسے ذمہ داران، جو توانائی کے شعبے کی نگرانی کرتے ہیں، عوام کو بنیادی سہولیات دینے میں ناکام رہے ہیں۔ بجلی کے ناقابل برداشت بل اور لوڈشیڈنگ نے متوسط اور غریب طبقے کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ آئی ایم ایف کے دباؤ پر سبسڈیاں ختم کرنے سے مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا، لیکن حکومت نے کوئی ٹھوس حل پیش نہیں کیا۔ سیاسی عدم استحکام جو 2022 میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے سے شروع ہوا، نے معاشی اصلاحات کو روک دیا۔ بونگے وزراء کی ناقص پالیسیوں نے عوام کا اعتماد ختم کر دیا ہےاور حکومتی دعوؤں کے باوجود مقامی روزگار کے مواقع پیدا نہیں ہو رہے۔ صنعتی زونز، کاروبار دوست پالیسیاں اور تعلیمی اصلاحات کے وعدے کاغذی رہے ہیں جبکہ پاکستانی معیشت زوال کا شکار ہے۔ 2023 میں غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 3 بلین ڈالر تک گر گئے جو صرف تین ہفتوں کی درآمدات کے لیے کافی تھے۔
غیر قانونی ہجرت کی طرف راغب ہونے کی وجوہات بھی رقت آمیز ہیں۔ انسانی سمگلرز دیہی علاقوں کے نوجوانوں کو یورپ میں "سنہری مستقبل” کے جھانسے دیتے ہیں اور لاکھوں روپے لے کر انہیں موت کے منہ میں دھکیل دیتے ہیں۔ قانونی ہجرت کے لیے ویزوں کا حصول مشکل اور مہنگا ہے، جس سے نوجوان غیر قانونی راستوں کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ کچھ خاندانی دباؤ اور سماجی توقعات کے تحت خطرہ مول لیتے ہیں جبکہ دیگر کو سمندری سفر کے خطرات کا علم ہی نہیں ہوتا۔ ایک سروے کے مطابق 37 فیصد پاکستانی ہجرت کی خواہش رکھتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے بچوں کے لیے بہتر مستقبل نظر نہیں آتا۔ یہ مایوسی پاکستانی معاشرے کی روح کو کھوکھلا کر رہی ہے۔
اس "برین ڈرین” کے نتائج تباہ کن ہیں۔ پاکستان اپنی باصلاحیت نسل کھو رہا ہے، جو معاشی ترقی کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ گجرات اور کوٹلی جیسے شہروں سے لاپتہ ہونے والے 100 سے زائد پاکستانیوں کے خاندان آج بھی انتظار میں ہیں۔ ایک ماں کا اپنے بیٹے کی لاش کے انتظار میں روتے ہوئے کہنا کہ "میں نے اسے پڑھایا، لیکن اسے نوکری نہ ملی” دل کو چیر دیتا ہے۔ یہ سانحات صرف اعداد و شمار نہیں بلکہ حکومتی ناکامی اور عوام کو کچھ بھی ڈیلیور نہ کر پانے کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ تعلیمی نظام ملکی معیشت کی ضروریات کے مطابق ہنرمند افرادی قوت تیار نہیں کر رہا اور صنعتی ترقی کی کمی نے روزگار کے مواقع کم کر دیے ہیں۔ پاکستان کی 64 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر ہے لیکن معیشت اس "یوتھ بلج” کو جذب کرنے سے قاصر ہے۔
اس بحران سے نکلنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ مقامی روزگار کے مواقع بڑھانے کے لیے صنعتی زونز قائم کیے جائیں۔ ووکیشنل ٹریننگ اور ہنر مندی پر مبنی تعلیم کو فروغ دیا جائے۔ انسانی سمگلنگ کے نیٹ ورکس کے خلاف سخت کارروائی اور عوام میں غیر قانونی ہجرت کے خطرات کے بارے میں آگاہی ضروری ہے۔ مہنگائی اور بجلی کے بلوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ٹھوس پالیسیاں بنائی جائیں۔ اگر یہ رجحان جاری رہا تو پاکستان اپنی ترقی کے خوابوں کو ہمیشہ کے لیے کھو دے گا۔
کیا ہم ہمیشہ اپنی قوم کے بہترین دماغوں کو بیگانہ سرزمینوں پر دفن ہونے کے لیے رخصت کرتے رہیں گے؟ کیا یہ وقت نہیں آ گیا کہ ہم سوچیں، کیوں ہمارا نوجوان اپنے وطن سے ناامید ہے؟ کیا حکومتیں صرف اعداد و شمار پر آنکھیں بند رکھیں گی، یا ان ماؤں کی فریاد سنیں گی جن کے بیٹے سمندروں میں غرق ہو گئے؟ کیا ہم اس سسٹم کو بدلنے کے لیے کھڑے ہوں گے یا یوں ہی اپنی صلاحیتوں کو دفن ہوتے دیکھتے رہیں گے؟ سوالات ہمارے سامنے ہیں، مگر کیا ہمارے پاس ان کے جوابات ہیں؟









